متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 67465
جواب نمبر: 67465
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1163-1251/N=11/2016
جب آپ ٹیچرنگ کے کچھ بھی فرائض انجام نہیں دیتے ہیں، صرف نام کے ملازم ہیں تو ایسی صورت میں ملنے والی تنخواہ آپ کے لیے کیسے جائز ہوسکتی ہے؟ کیوں کہ تنخواہ مفوضہ ذمہ داری کی انجام دہی کا عوض ہوتی ہے اور آپ ملازمت کی کچھ بھی ذمہ داری انجام نہیں دیتے ہیں؛ اس لیے صورت مسئولہ میں آپ یا تویہ ملازمت ترک کردیں یا ملازمت کے فرائض انجام دیں اور اس مرتبہ چھ ماہ کی تکمیل پر آپ کے اکاوٴنٹ میں جو تنخواہ آئے وہ بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیں یا انکم ٹیکس وغیرہ میں بھر دیں یا کسی بھی عنوان سے حکومت کے اکاوٴنٹ میں جمع کردیں، ھي - الإجارة- شرعاً تملیک نفع بعوض (تنویر الأبصار مع الدر والرد، أول کتاب الإجارة، ۹: ۴، ۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ، ۹: ۵۵۳، ) ، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء… …، قال: والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ظ: المکتبة الأشرفیة دیوبند) ، ویبرأ بردھا ولو بغیر علم المالک، فی البزازیة: غصب دراہم إنسان من کیسہ، ثم ردہا فیہ بلا علمہ برئ، وکذا لو سلمہ إلیہ بجہة أخریٰ کہبة وإیداع وشراء، وکذا لو أطعمہ فأکلہ، …، زیلعي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الغصب، ۹: ۲۶۶، ۲۶۹) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند