• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 67465

    عنوان: بغیر مفوضہ امور انجام دیے تنخواہ لینا؟

    سوال: میں ایک مدرسے میں ٹیچر ہوں، ، لیکن میری تنخواہ مرکزی حکومت سے ایس پی کیو ای ایم (SPQEM )اسکیم کے تحت ملتی ہے، لیکن یہ تنخواہ ہر مہینے نہ مل کر چھ مہینے یا ایک سال میں ملتی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس اسکیم کے تحت نوکری لگانے سے پہلے مدرسے والوں کو دکھانا پڑتاہے کہ یہ لڑکا ہمارے یہاں یہ پڑھارہاہے( اس کے لیی مجھے کاغذات جمع کرنے پڑے)،لیکن اس دوران مدرسے کے ناظم صاحب نے میرے سے مدرسے میں نہیں پڑھوا جب نوکری لگنے کے قریب معاملہ آیا تو انہوں نے میرے سے کہا تھا کہ وقت بھی دینا پڑے گا مدرسے میں، میں نے ایک بار ان سے پڑھوانے کو کہا تھا تو انہوں نے کسی دوسرے مہینے میں آنے کو کہا ،لیکن وہ میرے پاس آتے جاتے رہے اور پڑھانے کوئی معاملہ نہیں بن پایا، لیکن اب جب کہ چھ مہینے کی تنخواہ آنے والی ( جو میرے اکاؤنٹ میں ہی آئے گی ) ہے تو مسئلہ بن گیا کہ شرعی اعتبار سے یا تنخواہ میرے لیے کسی درجے میں جائز ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 67465

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1163-1251/N=11/2016

    جب آپ ٹیچرنگ کے کچھ بھی فرائض انجام نہیں دیتے ہیں، صرف نام کے ملازم ہیں تو ایسی صورت میں ملنے والی تنخواہ آپ کے لیے کیسے جائز ہوسکتی ہے؟ کیوں کہ تنخواہ مفوضہ ذمہ داری کی انجام دہی کا عوض ہوتی ہے اور آپ ملازمت کی کچھ بھی ذمہ داری انجام نہیں دیتے ہیں؛ اس لیے صورت مسئولہ میں آپ یا تویہ ملازمت ترک کردیں یا ملازمت کے فرائض انجام دیں اور اس مرتبہ چھ ماہ کی تکمیل پر آپ کے اکاوٴنٹ میں جو تنخواہ آئے وہ بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیں یا انکم ٹیکس وغیرہ میں بھر دیں یا کسی بھی عنوان سے حکومت کے اکاوٴنٹ میں جمع کردیں، ھي - الإجارة- شرعاً تملیک نفع بعوض (تنویر الأبصار مع الدر والرد، أول کتاب الإجارة، ۹: ۴، ۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ، ۹: ۵۵۳، ) ، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء… …، قال: والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ظ: المکتبة الأشرفیة دیوبند) ، ویبرأ بردھا ولو بغیر علم المالک، فی البزازیة: غصب دراہم إنسان من کیسہ، ثم ردہا فیہ بلا علمہ برئ، وکذا لو سلمہ إلیہ بجہة أخریٰ کہبة وإیداع وشراء، وکذا لو أطعمہ فأکلہ، …، زیلعي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الغصب، ۹: ۲۶۶، ۲۶۹) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند