متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 66179
جواب نمبر: 66179
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 986-1027/L=9/1437 اگر ضرورتاً کبھی ان غیر مسلمین کے ساتھ کھانے کی توبت آجائے تو ساتھ کھالینے میں مضایقہ نہیں، کیونکہ مطلقاً انسان کا جھوٹا خواہ وہ کافر ہو پاک ہے؛ کما فی الدرالمختار: فسور آدمی مطلقاً ولوجنباً أوکافراً إلی قولہ طاہر․ البتہ بلا ضرورت غیر مسلمین سے اختلاط و ارتباط ممنوع ہے اور ان کے ساتھ ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے میں ان کے ساتھ ایک طرح کی دوستی ہوجاتی ہے اور ان کے کفر سے نفرت ختم ہوجاتی ہے؛ اس لیے مستقلاً ان کے ساتھ کھانے کو حضرات فقہا منع کرتے ہیں۔ قال في الہندیة: ولم یذکر محمد رحمہ اللہ ، الأکل مع المجوسی وغیرہ من أہل الشرک أنہ ہل یحل أم لا؟ وحکی عن الحاکم الإمام عبد الرحمن الکاتب أنہ ان ابتلی بہ المسلم مرةً أو مرتین فلا بأس بہ وأما الدوام علیہ فیکرہ․ (الہندیة: ۵/۳۴۷) حافظ ابن تیمیہ نے اپنے رسالہ ”اقتضاء الصراط المستقیم فی مخالفة أصحاب الجحیم“ میں اس پر مدلل کلام کیا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ کافر سے زائد از حاجت کوئی تعلق نہ رکھے، اختلاط و محبت او رطرز وضع میں ان کی مخالفت کا اعلان کرے۔ شیعہ کے ساتھ کھانے کا بھی وہی حکم ہے؛ البتہ اس اعتبار سے کہ شیعہ اہل سنت والجماعت کے لوگوں کو نجس تک بھی کھلا دیتے ہیں؛ اس لیے ان کے ساتھ کھانے سے اور بھی احتیاط ضروری ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند