• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 64868

    عنوان: غیر اسلامی پروگرام نشر کرنے پر حاصل ہونے والی رقم سے تنخواہ حلال ہے یا حرام؟

    سوال: میں ایک ٹی وی چینل میں ایک آئی ٹی آفیسر کی حیثیت سے کام کررہا ہوں اور جہاں میں کام کررہا ہوں وہاں بہت سے غیر اخلاقی اور غیر اسلامی پروگرام نشر کئے جاتے ہیں، اور میری تنخواہ انہیں نشر ہونے والے پروگرام سے حاصل ہونے والی کمائی سے ملتی ہے، اس لیے مجھے شبہ ہے کہ میری تنخواہ حلال ہے یا حرام؟ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 64868

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 956-948/N=/10/1437 ٹی وی کا کوئی پروگرام جاندار کی تصاویر سے خالی نہیں ہوتا ؛ اس لیے ٹی وی چینل کی طرف سے ہر پروگرام میں جاندار کی تصویر سازی پائی جاتی ہے اور تصویر سازی مذہب اسلام میں سخت حرام وناجائز ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”أشد الناس عذاباً عند اللہ المصورون“، وعن ابن عباس رضی اللہ عنہماقال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:کل مصور فی النار یجعل لہ بکل صورة صورھا نفسا فیعذبہ فی جھنم، قال ابن عباس:فإن کنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا روح فیہ (مشکوة شریف ص ۳۸۵، ۳۸۶،بحوالہ: صحیحین)،وعن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:یخرج عنق من النار یوم القیامة لہا عینان تبصران وأذنان تسمعان ولسان ینطق، یقول:إنی وکلت بثلاثة:بکل جبار عنید وکل من دعا مع اللہ إلہا آخر وبالمصورین“رواہ الترمذی(حوالہ بالا ص ۳۸۶)۔اور مزید براں ٹی وی کے اکثر پروگرامس غیر اسلامی،غیر اخلاقی اور فحاشی وعریانیت پر مشتمل ہوتے ہیں؛ اس لیے کسی مسلمان کا کسی ٹی وی چینل میں بحیثیت آئی ٹی آفیسر ملازمت کرنا جائز نہیں ، نیز ماہانہ تنخواہ کی شکل میں حاصل ہونے والی آمدنی بھی جائز نہ ہوگی(مستفاد: احسن الفتاوی ۷: ۳۱۷، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی،منتخبات نظام الفتاوی ۳: ۳۳۳،۳۳۴، مطبوعہ: ایفا، پبلی کیشنز،دہلی)، اور صورت مسئولہ میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ تنخواہ چینل کی ناجائز آمدنی ہی سے دی جاتی ہے ؛ لہٰذا آپ موجودہ ملازمت چھوڑکر کوئی جائز ذریعہ معاش اختیار کریں، اللہ تعالی توفیق عطا فرمائیں اور آسان فرمائیں،قال اللہ تعالی:﴿ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان﴾(سورة المائدة،رقم الآیة: ۲)، لما فیہ من الإعانة علی مالا یجوز، وکل ما أدی إلی ما لا یجوز لا یجوز (الدر المختار مع رد المحتار عن شرح الوھبانیة، کتاب الحظر والإباحة ، فصل في اللبس ۹:۵۱۸ ، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، مستفاد: والثالث بیع أشیاء لیس لھا مصرف إلا فی المعصیة فلیتمحض بیعھا وإجارتھا وإن لم یصرح بھا،ففي جمیع ھذہ الصور قامت المعصیة بعین ھذا العقد، والعاقدان کلاھما آثمان بنفس العقد سواء استعمل بعد ذلک فی المعصیة أو لا؟ وسواء استعملھا علی ھذہ الحالة أو بعد إحداث صنعة فیہ؟فإن استعملھا فی المعصیة کان ذلک اثماً آخر علی الفاعل خاصة الخ(جواہر الفقہ قدیم، رسالہ: تفصیل الکلام في مسألة الإعانة علی الحرام۲: ۲۴۲، مطبوعہ: مکتبہ سیرت النبی ،سید منزل، جامع مسجد، دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند