• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 64852

    عنوان: غیراسلامی بینکنگ سے حاصل شدہ رقم کا حکم

    سوال: غیراسلامی بینک ملازمت (جس کے بارے میں علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جائز نہیں) سے حاصل شدہ رقم یا اس کے علاوہ کسی بھی حرام مال سے مکان تعمیر کروا کر کرائے پر لگادیں، تو اس سے حاصل شدہ منافع کا کیا حکم ہے آیا وہ آمدنی (جو کہ مقررہ ماہانہ اجرت ہے مکان کی ) حلال ہوگی یا حرام؟ اس سے قبل میں نے یہ سوال دارالافتاء کو ارسال کیا تھا ، سوال مبہم اور غیرواضح ہونے کے باعث خاطر خواہ جواب نہ مل پایا ، نیز ادارے کی جانب سے سوال واضح اور تفصیل سے پیش کرنے کا حکم دیا گیا ، اول تو اس بارے معذرت خواہ ہوں کہ سوال غیر واضح اور مبہم ہونے کی وجہ سے آپ حضرات کی تکلیف و تضییعِ وقت کا بھی باعث ہوا ! اب تعمیلاً دوبارہ سوال واضح طور پیش کیا جارہا ہے ! سوال یہ ہے کہ ''میرے والد نے بطور پیشہ بینک کی ملازمت اختیار کی تھی ، اول تو ہمیں اس ملازمت کی حرمت کا علم نہ تھا ، بعد میں معلوم بھی ہوا تو تمام کوششوں کے بعد بھی اس ملازمت کو ترک نہ کرسکے ، اس ملازمت کے ذریعے حاصل شدہ رقم سے جو کہ حرام ہے ، والد صاحب نے ایک مکان تعمیر کرواکر کرائے پر لگادیا۔ اب سوال یہ کہ اس مکان سے جو کرائے کی رقم ماہانہ حاصل ہوتی ہے ، اس رقم کا کیا حکم ہے ؟ آیا وہ حرام ہے یاحلال ؟ اسی طرح ہم وہ رقم جو ریٹایر منٹ کے طور پر ملی ہے ،اس سے تجارت شروع کی ہے ، تو اس رقم کا حکم بھی جو تجارت سے منافع کے طور پر حاصل ہوتی ہے ، نیر وہ رقم جو مکان کے کراے کے طور پر آتی ہے دونوں کا حکم تفصیل سے بتائیں ؟

    جواب نمبر: 64852

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 855-1410/N37=1/1437 (۱) : فقہائے کرام نے فرمایا: خلط بحکم استہلاک ہوتا ہے، اور استہلاک سبب ملک، یعنی: اگر حرام مال حلال مال میں اس طرح ملادیا گیا یا خود مل گیا کہ حرام کو حلال سے الگ کرنا ممکن نہیں رہا یا سخت مشکل ودشوار ہوگیا تو آدمی حرام مال کا مالک ہوجاتا ہے ، اور حرام مال کے بقدر ضمان اس کے ذمہ دین ہوجاتا ہے ، پس اگر کسی کے پاس بینک کی ناجائز ملازمت کی حرام آمدنی ہے اور وہ اس کی جائز آمدنی کے ساتھ اس طرح مل گئی کہ حرام کو حلال سے الگ کرنا ممکن نہیں رہا یا سخت مشکل ودشوار ہوگیا تو کل آمدنی پر اس کی ملکیت ثابت ہوجائے گی اور جب اس طرح کی کل آمدنی پر اس کی ملکیت ثابت ہوگئی تو اب اس سے خریدی جانے والی چیز یا بنائے گئے مکان میں بھی اس کی ملکیت ثابت ہوجائے گی، اور اگر ایسا مکان کسی کو کرایہ پر دیا گیا تو کرایہ حرام نہ ہوگا، البتہ مکان میں یا خریدی ہوئی چیز میں جتنا حرام مال صرف ہوا وہ بلا نیت ثواب غربا ومساکین دینا ضروری ہوگا۔ اور اگر حرام مال کا حلال کے ساتھ خلط نہیں ہوا؛ بلکہ بالکل ممتاز اور الگ رہا تو ایسے حرام مال سے خریدی ہوئی چیز میں حرمت منتقل ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ خریدار خریداری سے پہلے ہی بائع کو خالص حرام مال دیدے ، اس کے بعد اس کے عوض کوئی چیز خریدے یا ایجاب وقبول میں اس خالص حرام مال کی طرف اشارہ کرکے بحیثیت ثمن اسے متعین کردے ، اس کے بعد بذریعہ اشارہ متعین کیا ہوا وہی حرام مال ثمن کے طور پر دے ، اور اگر دونوں میں سے کوئی بات نہیں پائی گئی تو خریدی ہوئی چیز میں حرمت منتقل نہ ہوگی ؛ بلکہ یہ شخص خریدی ہوئی چیز کا مالک ہوجائے گا اور اس میں اس کے تمام مالکانہ تصرفات صحیح ودرست اور معتبر ہوں گے ، یہ امام کرخی کے مسلک کے مطابق تفصیل ہے اور بہت سے علمائے کرام نے اس پر فتوی دیا ہے ، نیز حرام مال کی کثرت وشیوع کی وجہ سے دفع حرج کے لیے اسی پر فتوی دینا مناسب ہے (دیکھئے : در مختار وشامی ۹: ۲۷۶، ۲۷۷، ۷: ۴۹۰، ۴۹۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، امداد الفتاوی ۲: ۱۰، ۱۱، ۱۴، ۱۵، ۶۶۸، سوال: ۱۹، ۲۸، ۷۷۴، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند ، فتاوی محمودیہ جدید۱۵: ۹۵- ۹۹، سوال: ۷۲۶۶، ۷۲۶۷، ۱۸: ۴۱۰ - ۴۱۲، ۴۱۵ -۴۱۷، سوال: ۸۹۰۱ - ۸۹۰۳، ۸۹۰۸، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل، فتاوی رحیمیہ جدید ۵: ۲۱۰، مطبوعہ: مکتبہ احسان دیوبند، منتخبات نظام الفتاوی ۲: ۲۷۰- ۲۷۲، مطبوعہ: ایفا پبلی کیشنز، دہلی، وغیرہ) ۔ پس اگر خالص حرام سے مکان کا سامان خرید کر مکان تعمیر کیا گیا، لیکن خریدتے وقت اوپر ذکر کردہ دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہیں پائی گئی جیسا کہ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے تو بھی مکان میں ملکیت ثابت ہوجائے گی اور مکان میں جتنا حرام مال لگا اس کے بقدر ضمان ذمہ میں دین ہوجائے گا ؛ اس لیے حرام آمدنی سے تعمیرکردہ مکان کو کرایے پر دے کر جو کرایہ حاصل ہوتا ہے، اسے استعمال کرسکتے ہیں، گنجائش ہے (مستفاد: فتاوی دار العلوم دیوبند ۱۳: ۱۴۰، سوال: ۴۷، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند) ، البتہ مکان کی تعمیر میں بینک کی ناجائز ملازمت کا جتنا پیسہ لگا ہے، وہ بلا نیت ثواب جلد از جلد غربا ومساکین کو دیدیا جائے تاکہ ذمہ فارغ ہوجائے۔ اور اگرمکان میں لگے ہوئے حرام مال کے بقدر پیسہ غریبوں کو دینے تک کرایہ کی رقم استعمال نہ کی جائے ؛ بلکہ وہ بھی غریبوں کو ہی دیدی جائے تویہ از قبیل تقوی ہوگا، جس کے افضل ہونے میں کچھ شبہ نہیں۔ (۲، ۳) : کرایے کی رقم کا حکم تو اوپر تفصیل کے ساتھ ذکر کردیا گیا۔ رہ گیا اس رقم کا حکم جو آپ کے والد صاحب کی تنخواہ سے کٹ کر جمع ہوتی رہتی ہے اور ریٹائرڈ ہونے کے وقت ملی ، یہ بظاہر اجرت موٴجلہ ہے، یعنی: تنخواہ کا وہ حصہ ہے جو یک مشت اخیر میں ادا کیا جاتا ہے ؛ اس لیے اس کا حکم زمانہ ملازمت کی تنخواہ کی طرح ہوگا، البتہ اس سے جو تجارت کی گئی ، اوپر نمبر ایک میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ایسی تجارت کی آمدنی استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی، البتہ ریٹائر منٹ کے طور پر جو رقم ملی ہے، وہ آہستہ آہستہ بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدی جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند