• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 61882

    عنوان: ( یاد رھے کہ جگر لله نے انسانی جسم میں اک ایسی چیز بنائی ھے کہ اگر جگر کو آدھے سے ذیادہ بھی کاٹ لیا جائے تو 2سے 3 مہینے میں جگر اپنی اصلی حالت میں آ جاتا ھے ۔)

    سوال: ( یاد رھے کہ جگر لله نے انسانی جسم میں اک ایسی چیز بنائی ھے کہ اگر جگر کو آدھے سے ذیادہ بھی کاٹ لیا جائے تو 2سے 3 مہینے میں جگر اپنی اصلی حالت میں آ جاتا ھے ۔) اک عالم صاحب میری والدہ کو اپنا جگر عطیہ کرنے کے لیے تیار ہوؤے ھیں لیکن انکا کہنا ھے کہ پہلے فتوہ لیا جائے ۔ وہ عالم صاحب شادی شدہ اور بچوں والے ہیں۔ کیا انکا گھریلو خرچہ اور انکی مکمّل صحت یابی تک کی ادویات کا خرچہ اُٹھا کراُنکے جگر کا کچھ حصہ لینا جائز ھے یا نہیں؟ برائے مہربانی جگر کی پیوند کاری، جگر عطیہ کرنے کے متعلق، اور جگر عطیہ کرنے والے کے گھریلواورادویات کے اخراجات کے متعلق تفصیل اوروضاحت سے جواب عنائیت فرمائیں. نوٹ :مفتیان کرام کو اگر مذید کچھ تفصیل درکار ہو تو برائے مہربانی رابطہ فرمائیں۔

    جواب نمبر: 61882

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 774-774/Sd=1/1437-U انسانی اعضاء کا استعمال بیماری کی صورت میں بھی جائز نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں آپ کی والدہ کے لیے مذکورہ عالم صاحب کا جگر لگوانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے ۔ قال السرخسي: والآدمي محترم بعد موتہ علی ماکان علیہ في حیاتہ ، فکما لا یجوز التداوي بشيء من الآدمي الحي اکراماً لہ، فکذلک لا یجوز التداوي بعظم المیت ، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کسر عظم المیت ککسر عظم الحي۔ ( شرح السیر الکبیر: ۱/۹۲، باب دواء الجراحة، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت ) قال في الہندیة:الانتفاع بأجزاء الآدمي لم یجز، قیل: للنجاسة وقیل: للکرامة، ہو الصحیح، کذا في جواہر الأخلاطي۔ ( الفتاوی الہندیة: ۵/۳۵۴، کتاب الکراہیة، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ) مضطر لم یجد میتةً، وخاف الہلاکَ، فقال لہ رجل : اقطع یديَّ وکلہا، أو قال: اقطع مني قطعةً وکلہا، لا یسعہ أن یفعل ذلک، ولا یصح أمرہ بہ کما لایسع للمضطر أن یقطع قطعةً من نفسہ، فیأکل، کذا في فتاوی قاضیخان۔ ( الفتاوی الہندیة: ۵/۳۳۸، کتاب الکراہیة، الباب الحادي عشر في الکراہة في الأکل وما یتصل بہا،کذا في جواہر الفقہ:۷/۱۹۔۔۷۴، ط: زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند