• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 612179

    عنوان:

    کسی چیز پر مالی جرمانہ لینا

    سوال:

    مفتیان کرام صاحبان سوال: ہماری بستی میں ایک مدرسہ ہے جس میں ایک صاحب کہیں سے ایک مشت موٹی رقم لاکر مدرسے کو دیا اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ رقم جرمانے کا ہے فورأ مدرسے کے ذمےداروں نے اس رقم کو لوٹا نے کی نیت کرلی لیکن اس رقم کو مدرسے استعمال کر لیا ہے موٹی رقم ہونے کی وجہ سے ایک مشت ادا کرنا مشکل ہے کیا ہم اس کو قسطوں میں ادا کر سکتے ہیں؟ دوسری بات یہ ہے کیا کہ اس رقم سے تعمیر شدہ کمرے کو ہم تعلیم کے لئے استعمال کر سکتے ہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 612179

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1516-349/L=11/1443

      کسی چیز پر مالی جرمانہ لینا ناجائز ہے ، اگر لے لیا جائے ، تو اگر اصل مالک معلوم ہو تو اس کو لوٹانا ضروری ہے ،پس اہل مدرسہ کو اگر اس بات کی تحقیق ہوگیی ہے ، کو ان کے پاس آئی ہوئی رقم جرمانے کی تھی ، تو اسے اصل مالک کو لوٹانا ضروری ہوگا ، اگر اب یک مشت واپسی مشکل ہے ، تو حسب موقع قسط وار واپسی کی جاسکتی ہے؛ البتہ اگر چندہ كركے یہ رقم دی جاتی ہے تو چندہ دہندگان كو اس سے مطلع كرنا ضروری ہوگا، اور اس رقم کی حقیقت معلوم ہونے سے قبل جو اس سے تعمیرات تیار ہوئی ہیں ، اس میں پڑھانا اور تعلیم دینا درست ہے ۔

    وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ.[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 4/ 61] مطلب في رد المغصوب وفيما لو أبى المالك قبوله (قوله ويجب رد عين المغصوب) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «على اليد ما أخذت حتى ترد» ولقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا يحل لأحدكم أن يأخذ مال أخيه لاعبا ولا جادا، وإن أخذه فليرده عليه» زيلعي، وظاهره أن رد العين هو الواجب الأصلي، وهو الصحيح كما سيذكره الشارح وسنوضحه (قوله ما لم يتغير تغيرا فاحشا) سيأتي تفسيره بأنه ما فوت بعض العين وبعض نفعه، وإنه حينئذ يتسلم الغاصب العين ويدفع قيمتها، أو يدفعها ويضمن نقصانها والخيار في ذلك للمالك رحمتي (قوله لتفاوت القيم إلخ) فلو غصب دراهم أو دنانير فطالبه المالك في بلدة أخرى عليه تسليمها، وليس للمالك طلب القيمة وإن اختلف السعر، ولو غصب عينا فلو القيمة في هذا المكان مثلها في مكان الغصب أو أكثر فللمالك أخذ المغصوب لا القيمة، ولو القيمة أقل أخذ القيمة على سعر مكان الغصب أو انتظر حتى يأخذه في بلده، ولو وجده في بلد الغصب وانتقص السعر يأخذ العين لا القيمة يوم الغصب، وإن كان هلك وهو مثلي وسعر المكانين واحد يبرأ برد المثل، ولو سعر هذا المكان الذي التقيا فيه أقل أخذ المالك القيمة في مكان الغصب وقت الغصب أو انتظر، ولو القيمة في هذا المكان أكثر أعطاه الغاصب مثله في مكان الخصومة أو قيمته حيث غصب ما لم يرض المالك بالتأخير، ولو القيمة في المكانين سواء للمالك أن يطالبه بالمثل منح عن الخانية ملخصا (قوله ويبرأ بردها) أي رد العين المغصوبة إلى المغصوب منه أي العاقل لما في البزازية غصب من صبي ورده إليه إن كان من أهل الحفظ يصح الرد وإلا لا اهـ. [الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 6/ 182]


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند