• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 608766

    عنوان: ملازمت کے اوقات میں ذاتی کام کرنا 

    سوال:

    میں پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں کام کر رہا ہوں، میرا سارا دن کمپیوٹر پر کام ہے ، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر میں اپنی ڈیوٹی کو متاثر کیے بغیر کمپیوٹر پر اخبار یا کوئی اور ذاتی کام دیکھتا ہوں تو کیا یہ اسلام کے مطابق درست ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 608766

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:321-101/TD-Mulhaqa=6/1443

     اصل حکم یہ ہے کہ ملازمت کے جو اوقات متعین ہیں ان میں مالک کی اجازت کے بغیر فرض منصبی کے علاوہ کوئی ذاتی کام کرنا جائز نہیں ہے۔

    قال الحصکفی: ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ، ولو عمل نقص من أجرتہ بقدر ما عمل فتاوی النوازل۔قال ابن عابدین:مطلب لیس للأجیر الخاص أن یصلی النافلة(قولہ ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ) بل ولا أن یصلی النافلة. قال فی التتارخانیة: وفی فتاوی الفضلی وإذا استأجر رجلا یوما یعمل کذا فعلیہ أن یعمل ذلک العمل إلی تمام المدة ولا یشتغل بشیء آخر سوی المکتوبة وفی فتاوی سمرقند: وقد قال بعض مشایخنا لہ أن یوٴدی السنة أیضا. واتفقوا أنہ لا یوٴدی نفلا وعلیہ الفتوی. وفی غریب الروایة قال أبو علی الدقاق: لا یمنع فی المصر من إتیان الجمعة، ویسقط من الأجیر بقدر اشتغالہ إن کان بعیدا، وإن قریبا لم یحط شیء فإن کان بعیدا واشتغل قدر ربع النہار یحط عنہ ربع الأجرة. (قولہ ولو عمل نقص من أجرتہ إلخ) قال فی التتارخانیة: نجار استوٴجر إلی اللیل فعمل لآخر دواة بدرہم وہو یعلم فہو آثم، وإن لم یعلم فلا شیء علیہ وینقص من أجر النجار بقدر ما عمل فی الدواة( الدر المختار مع رد المحتار:۷۰/۶، دار الفکر، بیروت،

    نیز دیکھیے:امداد الفتاوی: ۳۸۷/۳، کار دیگر ے کردن اجیر خاص را، زکریا، دیوبند) البتہ اگردیانت داری کے ساتھ امور مفوضہ انجام دینے کے باوجود آپ کے پاس وقت بچ جاتا ہے اور یونیورسٹی کی طرف سے صراحتاً یا دلالة ڈیوٹی کو متاثر کیے بغیر ذاتی نوعیت کے کام، مثلا: اخبار وغیرہ پڑھنے کی اجازت ہو تو آپ ڈیوٹی متاثر کیے بغیر ذاتی کام کر سکتے ہیں، گنجائش ہے۔ ( احسن الفتاوی: ۳۰۲/۷، دار الاشاعت، کراچی )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند