• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 607460

    عنوان:

    امامت یا دیگر کوئی دینی فریضہ انجام دینے پر اجرت لینا جائز ہے تو کیا اس پر ثواب بھی ملتا ہے ؟

    سوال:

    امامت یا اسی طرح کا کوئی دینی فریضہ انجام دینے پر اجرت لینا جائز ہے تو کیا اس پر ثواب بھی ملتا ہے ؟ اگر ملتا ہے تو دلیل کیا ہے ؟

    ۲) مفتی حضرات کا کہنا ہے کہ قرآن خوانی پر اجرت لینے سے ثواب نہیں ملتا اس کی کیا دلیل ہے ۔اگر امامت والی صورت میں ثواب ہے تو اس صورت میں فرق کی وجہ کیا ہے ؟ جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں۔

    جواب نمبر: 607460

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:116-45T/D-Mulhaqa=5/1443

     فقہائے متاخرین نے دین کے ابقاء کی وجہ سے امامت پر تنخواہ کو جائز قرار دیا ہے اور ثواب ملنے میں تفصیل ہے ، حضرت تھانوی  نے لکھا ہے کہ اگر امام کی یہ نیت ہے کہ اگر مجھ کو اس سے زیادہ دوسری جگہ تنخواہ ملے گی ،تو میں اس کوچھوڑ کر اس کو اختیار کرلوں گا، تب تو ثواب نہیں ملے گا، اور اس کو اجرت محضہ کہا جائے گا اور اگر یہ نیت رہے کہ زیادہ کے لئے بھی اس کو نہ چھوڑوں گا تو ثواب ضائع نہ ہوگا اور اس کو اجرت نہ کہا جاوے گا، بلکہ نفقہٴ حبس وکفایت مثل رزق قاضی کہاجاوے گا ۔ ( امداد الفتاوی: ۲۹۷/۷، جدید، سوال (۱۸۹۶) قدیم /۳ ۳۳۹) اور قرآن خوانی پر اجرت لینا یہ تلاوت محضہ پر اجرت لینا ہے ، جس کی فقہاء نے قطعا گنجائش نہیں دی ہے ؛ اس لیے کہ اس پر دین کا کا بقا موقوف نہیں ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ دونوں میں فرق ہے ، علامہ شامی  نے محض قرآن پڑھنے پر اجرت لینے کے عدم جواز اور اس پر ثواب نہ ملنے پر مفصل کلام کیا ہے ۔

    قال ابن عابدین : قال تاج الشریعة فی شرح الہدایة: إن القرآن بالأجرة لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقارء. وقال العینی فی شرح الہدایة: ویمنع القارء للدنیا، والآخذ والمعطی آثمان. فالحاصل أن ما شاع فی زماننا من قرائة الأجزاء بالأجرة لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقرائة وإعطاء الثواب للآمر والقرائة لأجل المال؛ فإذا لم یکن للقارء ثواب لعدم النیة الصحیحة فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد فی ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلة إلی جمع الدنیا - إنا للہ وإنا إلیہ راجعون - اہ.وقد اغتر بما فی الجوہرة صاحب البحر فی کتاب الوقف وتبعہ الشارح فی کتاب الوصایا حیث یشعر کلامہا بجواز الاستئجار علی کل الطاعات ومنہا القرائة.وقد ردہ الشیخ خیر الدین الرملی فی حاشیة البحر فی کتاب الوقف حیث قال: أقول المفتی بہ جواز الأخذ استحسانا علی تعلیم القرآن لا علی القرائة المجردة کما صرح بہ فی التتارخانیة حیث قال: لا معنی لہذہ الوصیة ولصلة القارء بقرائتہ؛ لأن ہذا بمنزلة الأجرة والإجارة فی ذلک باطلة وہی بدعة ولم یفعلہا أحد من الخلفاء، وقد ذکرنا مسألة تعلیم القرآن علی استحسان اہ یعنی الضرورة ولا ضرورة فی الاستئجار علی القرائة علی القبر.وفی الزیلعی وکثیر من الکتب: لو لم یفتح لہم باب التعلیم بالأجر لذہب القرآن فأفتوا بجوازہ ورأوہ حسنا فتنبہ اہ کلام الرملی۔ ( رد المحتار:۵۶/۶، دار الفکر، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند