• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 607428

    عنوان:

    آردڑ پر گاہک کے لیے لکڑی کا مندر بنانا

    سوال:

    میں کارپینٹر کا کام کرتا ہوں جس میں لکڑی کے شوروم، گھر کا ڈیکوریشن اور بھی بہت سے سامان لکڑی سے بنائے جاتے ہیں، ہمارا زیاراہ تر کام غیر مسلموں میں ہوتا ہے اور کبھی کبھی لکڑی کے مندر بنانے کو بھی کہا جاتا ہے جو ہم کو مجبوری میں بنانا پڑتا ہے ۔

    جواب نمبر: 607428

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:110-77/H=4/1443

     مسلمان کے لیے شرک اور بت پرستی کے کسی کام میں غیر مسلموں کا تعاون کرنا یا گناہ کے کسی بھی کام میں دوسروں کا تعاون کرنا جائزنہیں، قرآن کریم میں ممانعت آئی ہے؛ لہٰذا آپ کے لیے غیر مسلم گاہکوں کے لیے بھی لکڑی کا مندر بناناجائز نہ ہوگا، آپ مناسب اسلوب میں اس آرڈر کی تکمیل سے معذرت کردیا کریں اور رزق (روزی)کے سلسلہ میں اللہ تعالی پر بھروسہ رکھیں، رازق وہی ہیں۔

    قال اللّٰہ تعالی :﴿ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان﴾ (سورة المائدة، رقم الآیة: ۲)۔

    قال العلامة المفتي محمد شفیع رحمہ اللّٰہ تعالی في ”تفصیل الکلام في مسئلة الإعانة علی الحرام“:وإن لم یکن -السبب- محرکا وداعیا؛ بل موصلا محضا، وھو مع ذلک سبب قریب بحیث لایحتاج في إقامة المعصیة بہ إلی إحداث صنعة من الفاعل کبیع السلاح من أھل الفتنة وبیع العصیر ممن یتخذہ خمراً وبیع الأمرد ممن یعصي بہ وإجارة البیت ممن یبیع فیہ الخمر أو یتخذھا کنیسة أو بیت نار وأمثالھا، فکلہ مکروہ تحریما بشرط أن یعلم بہ البائع والآجر من دون تصریح بہ باللسان فإنہ إن لم یعلم کان معذوراً، وإن علم وصرح کان داخلاً فی الإعانة المحرمة (جواہر الفقہ، ۲: ۴۴۷، وص: ۴۵۵، ۴۵۶أیضاً ، ط: قدیم)۔

    والثالث بیع أشیاء لیس لھا مصرف إلا فی المعصیة ……ففي جمیع ھذہ الصورة قامت المعصیة بعین ھذا العقد والعاقدان کلاھماآثمان بنفس العقد إلخ (المصدر السابق، ص: ۴۴۲)۔

    مستفاد: وفي المحیط: بیع المکعب المفضض للرجل إن لیلبسہ یکرہ؛ لأنہ إعانة علی لبس الحرام، وإن إسکافاً أمرہ إنسان أن یتخذ لہ خفاً علی زي المجوس أو الفسقة أو خیاطاً أمرہ أن یتخذ لہ ثوباً علی زي الفساق یکرہ لہ أن یفعل؛ لأنہ سبب التشبہ بالمجوس والفسقة اھ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع وغیرہ، ۹: ۵۶۲)۔

    فإذا ثبت کراھة لبسھا -لبس خاتم الذھب والحدید والصفر وغیرھا-للتختم ثبت کراھة بیعھا وصیغھا لما فیہ من الإعانة علی ما لا یجوز، وکل ما أدی إلی ما لا یجوز لا یجوز، وتمامہ في شرح الوھبانیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل اللبس، ۹: ۵۱۸، ۵۱۹)۔

    ألا تری أنا نقرھم علی الصلیب ولا یستحق صانعہ أجرة ونقرھم علی التوراة والإنجیل ولو اشتروھا أواستأجروا من یکتبھا لم نحکم بصحتہ فکذلک الترمیم إذا مکناھم منہ لم یحل للسطان ولا للقاضي أن یقول لھم: افعلوا ذلک ولا أن یعینھم علیہ ولا یحل لأحد من المسلمین أن یعمل لھم فیھم ولو استأجروا وترافعوا إلینا حکمنا ببطلان الإجارة ولا نزید علی مجرد التمکین بمعنی التخلیة وترکھم وما یدینون، قال الشارح: وھذا التحقیق الذي ذکرہ الإمام السبکي ھو مراد الشیخین والأصحاب ولا یجوز فھم سواہ، واللہ أعلم انتھی (الأثر المحمود لقھر ذوی العھود للشرنبلالي ص: ۴۴، ۴۵)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند