• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 607009

    عنوان:

    کرکٹ / فٹ بال وغیرہ کھیلنا کیسا ہے؟

    سوال:

    میں جوگیشوری مغربی ممبئی میں رہ رہا ہوں ، ہماری بلڈنگ میں بالغ مسلمانون کے گروپس میں ہر ہفتے کو رات 2 بجے تک کرکٹ کھیلتے ہیں ، وہ ہنگامہ کرتے ہیں، آس پاس پڑوس میں رہ رہے لوگوں کے امن خلل پیدا کرتے ہیں، گروپ سے مسلسل درخواست کے بعد بھی وہ رات ایک دو بجے تک کرکٹ کھیلتے ہیں، پیسہ جمع کرکے وہ کرکٹ ٹورنامینٹ بھی کھیلتے ہیں، میں دیکھا ہے کہ ہماری مسجد کے امام نے ٹورنامینٹ شروع ہونے سے پہلے قرآن کی تلاوت کی ہے ، ، رات کو اس طرح کرکٹ کھیل کر دوسروں کو پریشان کرنے کے اس فعل پر فتویٰ دیں اور کیا کسی بھی عالم کا اس قسم کے ٹورنامنٹ میں جانا اور غلط کاموں کی حوصلہ افزائی کرنا درست ہے ؟

    جواب نمبر: 607009

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:340-58T/L=4/1443

     شریعت نے حدود میں رہتے ہوئے کھیلنے سے منع نہیں کیا ہے ؛ البتہ کھیلوں میں اس طرح منہمک ہوجانا کہ فرائض و واجبات میں بھی کوتاہی اور غفلت ہوجائے ، یا کسی دوسرے کی ایذاء اور تکلیف کا باعث بنے ، یا اس میں جوا اور سٹہ لگا یا جائے ، ہرگز جائز نہیں ہے ، یہ سب چیزیں معلوم ہوتے ہوئے امام صاحب کو ان کی دعوت پر وہاں بغرضِ تلاوت جانا اور اس طرح کے غیرشرعی امور میں شرکت کرنا بھی درست نہیں ہے ، ممکن ہے امام صاحب صحیح صورتحال سے واقف نہ ہوں؛ البتہ آئندہ ان پر ضروری ہے کہ اس سے اجتناب کریں ۔

    عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، قال: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، والمہاجر من ہجر ما نہی اللہ عنہصحیح البخاری - ط السلطانیة (1/ 11) عن عقبة بن عامر، قال: سمعت رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- یقول: "إن اللہ عز وجل یدخل بالسہم الواحد ثلاثة نفر الجنة: صانعہ یحتسب فی صنعتہ الخیر، والرامی بہ، ومنبلہ، وارموا وارکبوا، وأن ترموا أحب إلی من أن ترکبوا، لیس من اللہو إلا ثلاث: تأدیب الرجل فرسہ، وملاعبتہ أہلہ، ورمیہ بقوسہ ونبلہ، ومن ترک الرمی بعد ما علمہ رغبة عنہ، فإنہا نعمة ترکہا -أو قال: کفرہاسنن أبی داود - ت الأرنؤوط (4/ 167)ولفظ الطیالسی: "کل شیء یلہو بہ الرجل باطل، إلا رمی الرجل بقوسہ، أو تأدیبہ، أو ملاعبتہ امرأتہ، فإنہن من الحق"المسبوک علی منحة السلوک فی شرح تحفة الملوک (4/ 173) من الناس من یشتری إلخ، ولَہْوَ الْحَدِیثِ علی ما روی عن الحسن کل ما شغلک عن عبادة اللہ تعالی وذکرہ من السمر والأضاحیک والخرافات والغناء ونحوہاتفسیر الألوسی = روح المعانی (11/ 66)أی لا یجوز أخذ الأجرة علی المعاصی (کالغناء، والنوح، والملاہی) ؛ لأن المعصیة لا یتصور استحقاقہا بالعقد فلا یجب علیہ الأجر، وإن أعطاہ الأجر وقبضہ لا یحل لہ ویجب علیہ ردہ علی صاحبہ.وفی المحیط إذا أخذ المال من غیر شرط یباح لہ؛ لأنہ عن طوع من غیر عقد.وفی شرح الکافی لا یجوز الإجارة علی شیء من الغناء والنوح، والمزامیر، والطبل أو شیء من اللہو ولا علی قرائة الشعر ولا أجر فی ذلک. مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر (2/ 384)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند