• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 606240

    عنوان:

    اصلاحی بیانات کی ویڈیو ریکارڑنگ بنانا؟

    سوال:

    عرض ہے کہ کیا اصلاحی بیانات کی ویڈیو بنانا جائز ہے ؟ جبکہ باطل کی کثیر محنت ویڈیو کے ذریعہ سے ہوتی ہے توکیا اس کا توڑ ویڈیو کے ذریعہ سے کرنا درست ہے ؟ اگر ہے تو کون بنا سکتا ہے ، کیا صرف سند یافتہ عالم ہی بنا سکتا ہے یا عام مسلمان بھی؟ جائز ہونے کی صورت میں قواعد و ضوابط سے بھی مطلع فرمائیں۔

    جواب نمبر: 606240

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:158-141/N=3/1443

     (۱ - ۴): اسلام میں انسان یا کسی بھی جان دار کی تصویر کشی اور ویڈیو سازی بلا ضرورت شرعیہ جائز نہیں ہے، احادیث میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں (تفصیل کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کا رسالہ ” تصویر کے شرعی احکام“ ملاحظہ فرمائیں)، ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوز ، عام تصاویر اور ویڈیوز ہی کے حکم میں ہیں، یعنی:نصوص شرعیہ دونوں ہی قسم کی تصاویر اور ویڈیوز کو شامل ہیں، ڈیجیٹل تصاویر یا ویڈیوز کو عام تصاویر کی نصوص شرع سے مستثنیٰ کرنا درست نہیں، اکابر علمائے دیوبند کی یہی تحقیق اور فتوی ہے، اور دار الافتا دار العلوم دیوبند اور دار الافتا مظاہر علوم سہارن پور وغیرہ سے یہی فتوی دیا جاتا ہے (چند اہم عصری مسائل جلد اول میں ڈیجیٹل تصاویر سے متعلق مذکورہ بالا دونوں مرکزی اداروں کے فتاوی موجود ہیں، دلائل وتفصیلات کے لیے انھیں ملاحظہ کرنا چاہیے)۔

    اور اہل علم، شریعت کی حدود اور دائرہ میں رہ کر ہی اشاعت دین وتبلیغ دین اور دفاع دین کے مکلف ہیں، اُس سے آگے نہیں، یعنی: اشاعت دین کے جتنے جائز ذرائع اور وسائل اہل علم کے بس میں ہیں، اہل علم ان ذرائع اور وسائل سے اشاعت دین وغیرہ کے مکلف ہیں ، کسی ناجائز اور گناہ کے راستہ سے اہل علم اشاعت دین وغیرہ کے مکلف نہیں ہیں؛ بلکہ ناجائز ذرائع اور وسائل سے اشاعت دین درست ہی نہیں، نیز اسلام اور احکام اسلام پھیلانے کے طریقے اور ہیں اور کفر وضلالت اور ان سے متعلق چیزیں پھیلانے کے طریقے اور؛ اسی لیے دور اول سے اہل حق کی کسی جماعت نے اشاعت دین کے لیے کوئی خلاف شرع طریقہ اختیار نہیں فرمایا ہے (آپ کے مسائل اور ان کا حل،از حضرت مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی)؛ لہٰذا اشاعت دین کے نام پر (انسان یا کسی بھی جاندار کی) تصویر کشی اور ویڈیو سازی کا راستہ اختیار کرنا جائز نہ ہوگا اور نہ ہی اسے ضرورت قرار دینا درست ہوگا، پس اصلاحی بیانات کی ویڈیو بنانا جائز نہیں، صرف آڈیوبیانات پر اکتفا کیا جائے اور اسی سے حتی الامکان باطل کی توڑ کی کوشش ومحنت کی جائے۔

    عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”أشد الناس عذاباً عند اللہ المصورون“، متفق علیہ، وعن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:”کل مصور فی النار یجعل لہ بکل صورة صورھا نفسا فیعذبہ فی جھنم“، قال ابن عباس:فإن کنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا روح فیہ، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب التصاویر، الفصل الأول،ص ۳۸۵، ۳۸۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    وعن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:یخرج عنق من النار یوم القیامة لہا عینان تبصران وأذنان تسمعان ولسان ینطق، یقول:إنی وکلت بثلاثة:بکل جبار عنید وکل من دعا مع اللہ إلہا آخر وبالمصورین“رواہ الترمذي (المصدر السابق، الفصل الثاني، ص ۳۸۶)۔

    وعن سعید بن أبی الحسن قال:کنت عند ابن عباس إذ جاء ہ رجل فقال:یا ابن عباس! إنی رجل إنما معیشتی من صنعة یدی،وإني أصنع ہذہ التصاویر، فقال ابن عباس:لاأحدثک إلا ما سمعت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سمعتہ یقول:”من صور صورة فإن اللہ معذبہ حتی ینفخ فیہ الروح ولیس بنافخ فیہا أبدا“فربا الرجل ربوة شدیدة واصفر وجہہ، فقال:ویحک إن أبیت إلا أن تصنع فعلیک بہذا الشجر وکل شی لیس فیہ روح۔رواہ البخاري (المصدر السابق، الفصل الثالث)۔

    کل أمر بمعروف یتضمن منکراً یسقط وجوبہ کذا في الوجیز للکردري (الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الرابع في الصلاة والتسبیح الخ، ۵: ۳۱۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند