• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 605692

    عنوان:

    ڈاكٹری كا علم حاصل كیے بغیر دوا دینا؟

    سوال:

    اگر کوئی فرد کالج جائے بنا کسی کو دوا دے سکتا ہے کیا اس طرح علاج کرنا درست ہے یا نہیں؟کیا اس کے لیے جو کمائی جائز ہے یا نہیں ؟ اس کو قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیجیے ۔

    جواب نمبر: 605692

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1151-894/L=12/1442

     بغیر واقفیت معالجہ کرنا درست نہیں ہے ، نہ اپنا اور نہ دوسروں کا ؛البتہ جو شخص تجربہ رکھتا ہوبایں طور کہ اس نے کسی ماہر ڈاکٹر کی نگرانی میں کام کیا ہو، تشخیصِ مرض بھی جانتا ہو ،اگرچہ اس کے پاس سند نہ ہو، اس کے لئے علاج کرنا درست ہے ،امداد الفتاوی میں ہے : ضرورت میں متأخرین نے تداوی بغیر الطبیب کی اجازت دی ہے ، اگر کوئی اس پر عمل کرے گنجائش ہے ۔(امداد الفتاوی : ۲۰۹/۴) البتہ اگر کسی نے کسی ماہر طبیب کے پاس رہ کر طب کا تجربہ حاصل نہ کیا ہو،بلکہ محض عام لوگوں کی طرح کسی ڈاکٹر یا حکیم سے چند دواؤں کے نام یاد کر لیے ہوں اور ان دواؤں کے فوائد اور ان کے مریضوں کی تخصیص بھی عامی کی طرح معلوم کرلی ہو،ایسا شخص نسخہ کی تبدیلی وغیرہ کا تجربہ نہیں رکھ سکتا؛اس لیے ایسے شخص کا علاج ومعالجہ کرنااور طب کا کام کرنا حدیث کی رو سے ممنوع ہوگا۔حضور ﷺ نے فرمایا: من تطبّب ولا یعلم منہ طب فہو ضامن۔ (ابوداؤد شریف:۶۳۰/۲)

    نوٹ: بغیر پڑھے محض پریکٹس کرکے علاج کرنا بشرائط مذکورہ اگرچہ شرعاً جائز ہے ، لیکن یہ قانوناً جرم ہے ،پکڑے جانے کی صورت میں مال وجان، عزت وآبرو کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ، اس لئے طب کی سند حاصل کئے بغیر علاج کرنے سے احتراز کرنا ضروری ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند