• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 605070

    عنوان:

    جھوٹی تصدیق كرواكے حكومت سے پوری رقم لینا؟

    سوال:

    میں نے ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا کینیڈا میں یہ قانون ہے کہ اگر کسی شہری کی اہلیہ یا گھر میں کوئی بیمار ہے تو حکومت اس شخص کو جو اُن مریضوں کی خدمت میں ہوتا ہے اُسے کچھ پیسے دیتی ہے ۔لیکن اس کے لیے یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ شخص کسی ادارے میں کام کرتا ہے تو اس ادارے سے تصدیق کروانی ہوتی ہے کہ فلاں شخص کے گھر میں بیوی بیمار ہے اور وہ آفس نہیں آرہا بلکہ اپنی بیوی کی خدمت میں ہوتا ہے ۔ لیکن اگر وہ شخص نوکری کرتا ہے تو اُسے حکومت پیسے نہیں دیتی۔اور اگر وہ نوکری پر جاتا تو ہے لیکن کم جاتا ہے ، جلدی آجاتا ہے بیوی کی خدمت کے لیے تو حکومت پھر یہ دیکھتی ہے کہ کتنا وقت بیمار کو دیا جارہا ہے اور کتنا وقت ملازمت کی جارہی ہے ۔ پھر اُ س حساب سے اُس کے پیسے متعین کیے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر وہ نوکری پر نہیں جاتا تو بیمار کی خدمت کرنے کی وجہ سے اُسے دس ہزار ملتے ہیں اور اگر وہ نوکری پر جاتا تو ہے لیکن پورا وقت نہیں دیتا تو پھر اُسے آدھی رقم ملتی ہے ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ ایک کمپنی والے کہتے ہیں کہ یا تو ہم سے پوری رقم کا تصدیق نامہ لکھوا دو یا پھر رقم لو ہی نہیں، ہم یہ نہیں لکھیں گے کہ آ پ آدھا وقت ملازمت کر رہے ہیں اور آدھے وقت بیمار کی خدمت۔ یہ بتا دیں کہ اگر وہ پوری رقم چھوڑتا بھی ہے جھوٹ سے بچنے کی خاطر تو حکومت کی طرف سے تووہ حقدارہے آدھی رقم لینے کا،اُسے کیسے چھوڑ دے ؟اور اگر خدانخواستہ جھوٹ لکھتا ہے کہ اُسے پوری رقم دی جائے تو پھر یہ جھوٹ کے گناہ کے ساتھ ساتھ حکومت کی اضافی رقم بھی لے لیگا جیسے اُسے آدھا وقت بیمار کے پاس رہنے سے 7ہزار ملتے ہیں اور پورا وقت بیمار کے پاس رہنے سے دس ہزار ملتے ہیں، وہ جھوٹ بول کے لکھ لے کہ وہ پورا وقت بیمار کی خدمت کو دیتا ہے تو دس ہزار تو مل جائیں گے لیکن جو اضافی تین ہزار ملیں گے وہ تو شاید حلال نہ ہو۔ برائے کرم مسئلہ کی وضاحت فرما دیں جزاک اللہ۔ عبداللہ کینیڈا۔

    جواب نمبر: 605070

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:826-174T/sd=1/1443

     صورت مسئولہ میں کمپنی سے جھوٹی تصدیق کرواکر حکومت سے پوری رقم لینا جائز نہیں ہوگا، جتنی رقم کا استحقاق ہو بس اتنی ہی رقم حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے جان کار افراد سے مشورہ کرلیا جائے کہ جھوٹ سے بچتے ہوئے رقم کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند