• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 605057

    عنوان:

    كرایہ دار كا سامان‏، فرنیچر وغیرہ بیچ كر اس كا بقایا ٹیكس ادا كرنا؟

    سوال:

    حضرت اقدس مفتی صاحب ! دامت فیوضکم ہمارے شہر میں ایک بڑی ہوٹل کرایہ پر دی گئی تھی، کرایہ دار اور مالک کے درمیان پانچ سالہ کرایہ داری معاہدہ ہوا تھا، کرایہ دار اپنا کرایہ پابندی سے ادا کرتا رہا، مگر اخیر میں لاک ڈاؤن کا عذر کرتے ہوئے تین چار مہینوں کا کرایہ ادا نہیں کیا، اور ہوٹل نہ چلنے کا عذر بھی کرنے لگا، پھر پانچ سال کی مدت گزرجانے کے بعد بھی وہ مالکان سے کرایہ داری کے معاملہ کو باقی رکھنے کے لئے کہہ رہا تھا؛ مگر اس پر مالکان (پچھلے چند مہینوں کا کرایہ ادا نہ کیے جانے کی وجہ سے ) راضی نہیں تھے ، ادھر کرایہ دار ہوٹل خالی نہیں کررہا تھا، تو مالکان نے (محض کرایہ دار کا قبضہ چھڑانے کے لیے ) جھوٹ موٹ کہا کہ چھ ماہ ہم ہوٹل چلائیں گے ، آپ ہمیں چھ ماہ کے لیے ہوٹل دیدیں، اس پر جب اس نے ہوٹل حوالہ کی تو مالکان ہوٹل چلانے لگے ، اور انہوں نے ہوٹل کی بہت سی چیزوں کو تبدیل بھی کیا، اب جب چھ ماہ بعد کرایہ دار ہوٹل اپنے قبضہ میں لینے کے لیے آیا تو مالکان نے صاف انکار کردیا، اور کرایہ دار کا رکھوایا ہوا ایڈوانس (پانچ لاکھ روپے ) بھی دینے سے یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ ہم نے بقایا کرایہ اس ایڈوانس میں منہا کرلیا ہے ، (حقیقت بھی یہ ہے کہ کرایہ منہا کرلینے کے بعد ایڈوانس کی رقم میں کچھ نہیں بچتا !) نیز مالکان نے کرایہ دار کا ساز و سامان بھی اسے دینے سے انکار کردیا کہ تم نے ٹیکس ادا نہیں کیا تھا، اس کی بڑی رقم بھی واجب الأداء تھی؛ لہذا ہم نے تمہارا سامان ، فرنیچر، اے سی وغیرہ فروخت کرکے ٹیکس کی ادائیگی کردی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ (۱) کیا ایڈوانس کی پوری رقم بقایا کرایہ کے طور پر منہا کرلینا صحیح ہے ؟ (۲) اور بغیر اجازت سامان، فرنیچر وغیرہ بیچ کر کرایہ دار کا بقایا ٹیکس ادا کردینا درست ہوا یا نہیں؟ اگر یہ عمل جائز نہ تھا تو اب کیا کیا جائے ؟ (۳) غیر شادی شدہ جوڑے کو ہوٹل کا روم کرایہ پر دینا کیسا ہے ؟ لاعلمی میں کیا حکم ہے ؟ نیز جب ہمیں اندازہ ہوکہ یہ جوڑا غیر شادی شدہ ہے ؛ تب کیا حکم ہے ؟ کیا ہوٹل مالک کے لیے کرایہ حلال رہے گا ؟ (۴) شراب ساتھ لانے والوں کو ہوٹل کا کمرہ کرایہ پر دینے کا شرعی حکم بھی واضح فرمادیں۔ براہ کرم ان سوالات کا نمبروار جواب عنایت فرمائیں۔ عربی حوالہ جات کی طرف بھی رہنمائی فرمادیں تو نوازش ہوگی۔ جزاکم اللہ خیراً کثیرا

    (نوٹ : یہ استفتاء ہوٹل مالکان کی جانب سے کیا جارہا ہے ۔)

    جواب نمبر: 605057

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:960-162T/L=11/1442

     مذکورہ بالا صورت میں کرایہ دار اور مالک ہوٹل کے درمیان پانچ سال کے لئے جو معاہدہ ہوا تھا دونوں کا اس پر عمل کرنا ضروری ہے اگر مدت اجارہ کے پورے ہوجانے پر مالک اپنی دکان کرایہ دار سے واپس لینا چاہیں تو کرایے دار کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے رہا مسئلہ لاک ڈاون میں کرایہ کی ادائیگی کا تو اگر لاک ڈاون میں دکان کرایہ دار کی تحویل اور قبضہ میں تھی اور عقد اجارہ کو فسخ نہیں کیا گیا تھا جیسا کہ سوال سے مفہوم ہورہا ہے تو مالک ہوٹل کرایہ کا حق دار ہوگا اور کرایے دار کا لاک ڈاون کا عذر قابل مسموع نہ ہوگا ،البتہ موجودہ حالات میں مسلمان جہاں بالعموم احسان وتبرع کا معاملہ کرہے ہیں وہیں پر مالکان کو بھی چاہیے کہ اپنے کرایہ دار بھائیوں کے ساتھ رعایت کا معاملہ کریں یعنی متعینہ کرایہ سے کچھ کم وصول کریں تاکہ ان کے لئے کرایہ کی ادائیگی آسان ہو اگر مالک ہوٹل ایسا کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا واضح رہے کہ اگر کرایہ دار کے ذمہ ہوٹل کا کچھ کرایہ باقی تھا اور مالک نے کرایہ دار کی جمع شدہ رقم سے ایڈوانس کے نام سے کرایہ منہا کرلیا تو شرعا اس کی تو گنجائش ہوگی اسی طرح اگر ٹیکس دینا کرایہ دار کے ذمہ تھا تو ٹیکس کی ادائیگی کے بقدر ایڈوانس رقم سے لینے کی گنجائش ہوگی اور اگر کرایہ دار رقم دینے سے انکار کرے تو اس کے سامان وغیرہ کو فروخت کرکے ٹیکس ادا کرنے کی گنجائش ہوگی۔

    (2)غیرشادی شدہ لڑکے اور لڑکی کو کمرہ کرایہ پر دینے سے پہلے اگر یہ معلوم ہوجائے کہ کہ یہ دونوں غیرمحرم ہیں اور ان کا آپس میں ناجائز تعلق ہے تو ایسے جوڑے کو ہوٹل کرایہ پر دینا جائز نہ ہوگا ؛ کیونکہ اس میں ایک طرح کا تعاون علی الاثم ہوگا جس کی قرآن میں ممانعت آئی ہے ؛ البتہ اگر لاعلمی میں دیدیا ہے تو امید ہے کہ مواخذہ نہ ہو ۔اسی طرح ایسے لوگوں کو بھی کمرہ کرایہ پر دینے سے احتراز کرنا چاہیے جن کے بارے میں یہ معلوم ہوکہ وہ اس میں شراب نوشی کریں گے ۔ واضح رہے کہ دونوں صورتوں میں ان کی طرف سے ملنے والی کرایہ کی رقم پر حرمت کا حکم نہ ہوگا ۔

    وتستحق بِأحد معَان ثَلَاثَة إِمَّا بِشَرْط التَّعْجِیل أَو بالتعجیل من غیر شَرط أَو بِاسْتِیفَاء الْمَعْقُود عَلَیْہِ وَإِذا قبض الْمُسْتَأْجر الدَّار فَعَلَیہِ الْأُجْرَة وَإِن لم یسکنہَا (بدایة المبتدی ص: 186) (قولہ أو تمکنہ منہ) فی الہدایة: وإذا قبض المستأجر الدار فعلیہ الأجرة وإن لم یسکن.قال فی النہایة: وہذہ مقیدة بقیود: أحدہما التمکن، فإن منعہ المالک أو الأجنبی أو سلم الدار مشغولة بمتاعہ لا تجب الأجرة.[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/ 11) فإذا ظفر بمال مدیونہ لہ الاخذ دیانة بل لہ الاخذ من خلاف الجنس علی ما نذکرہ قریبا. حاشیة رد المحتار - (ج 4 / ص 267) وقال آیضاً: تنبیہ: قال الحموی فی شرح الکنز نقلا عن العلامة المقدسی عن جدہ الاشقر عن شرح القدوری للاخصب: إن عدم جواز الاخذ من خلاف الجنس کان فی زمانہم لمطاوعتہم فی الحقوق، والفتوی الیوم علی جواز الاخذ عند القدرة من أی مال کان لا سیما فی دیارنا لمداومتہم العقوق.قال الشاعر: عفاء علی ہذا الزمان فإنہ * زمان عقوق لا زمان حقوق وکل رفیق فیہ غیر مرافق * وکل صدیق فیہ غیر صدوق.(حاشیة رد المحتار - (ج 6 / ص 445)( قولہ وجاز إجارة بیت إلخ ) ہذا عندہ أیضا لأن الإجارة علی منفعة البیت ، ولہذا یجب الأجر بمجرد التسلیم ، ولا معصیة فیہ وإنما المعصیة بفعل المستأجر وہو مختار فینقطع نسبیتہ عنہ ، فصار کبیع الجاریة ممن لا یستبرئہا أو یأتیہا من دبر وبیع الغلام من لوطی والدلیل علیہ أنہ لو آجرہ للسکنی جاز وہو لا بد لہ من عبادتہ فیہ ا ہ زیلعی وعینی ومثلہ فی النہایة والکفایة ، قال فی المنح : وہو صریح فی جواز بیع الغلام من اللوطی ، والمنقول فی کثیر من الفتاوی أنہ یکرہ وہو الذی عولنا علیہ فی المختصر ا ہ .أقول : ہو صریح أیضا فی أنہ لیس مما تقوم المعصیة بعینہ ، ولذا کان ما فی الفتاوی مشکلا کما مر عن النہر إذ لا فرق بین الغلام وبین البیت والعصیر " فکان ینبغی للمصنف التعویل علی ما ذکرہ الشراح فإنہ مقدم علی ما فی الفتاوی .نعم علی ہذا التعلیل الذی ذکرہ الزیلعی یشکل الفرق بین ما تقوم المعصیة بعینہ وبین ما لا تقوم بعینہ ، فإن المعصیة فی السلاح والمکعب المفضض ونحوہ إنما ہی بفعل الشاری فلیتأمل فی وجہ الفرق فإنہ لم یظہر لی ولم أر من نبہ علیہ .نعم یظہر الفرق علی ما قدمہ الشارح تبعا لغیرہ من التعلیل ، لجواز بیع العصیر بأنہ لا تقوم المعصیة بعینہ ، بل بعد تغیرہ فہو کبیع الحدید من أہل الفتنة ، لأنہ وإن کان یعمل منہ السلاح لکن بعد تغیرہ أیضا إلی صفة أخری .وعلیہ یظہر کون الأمرد مما تقوم المعصیة بعینہ کما قدمناہ(رد المحتار - (ج 26 / ص 484)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند