• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 604978

    عنوان:

    چوری كے پیسوں سے كیے گئے كاروبار كی زكات مستحقین كے لیے درست ہے یا نہیں؟

    سوال:

    ایک آدمی نے حکومت سے چھ لاکھ ڈالر چوری کی اور پھر انہی پیسو سے حلال کاروبار شروع کیا ، اب اس پیسوں سے وہ سالانہ زکواة لوگوں کو دیتا ہے تو کیا ان لوگوں کو یہ پیسہ حلال ہے یا حرام؟

    جواب نمبر: 604978

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 868-200T/D=10/1442

     چوری کی ہوئی رقم مالک کو واپس کرنا لازم ہے؛ البتہ اس رقم سے کاروبار کرنے کی صورت میں جو نفع ہوا وہ نفع اس کے لئے استعمال کرنا جائز ہے اور اس کی زکاة ادا کرنی بھی لازم ہے۔ قال فی الدر: اکتسب حراما أو اشتریٰ بہ أو بدراہم المغصوبة شیئا۔ قال الکرخی ان نقد قبل البیع تصدق بالربح والا لا ․․․․․․․․ نقل الشامی قال فی التارتارخانیہ المسئلہ علی خمسة اوجہ ․․․․․․․․ قال الکرخی فی الوجہ الاول والثانی لا یطیب وفی الثلاث الاخیرة یطیب۔ وقال ابوبکر لا یطیب فی الکل، لکن الفتویٰ الآن علی قول الکرخی دفعا للحرج عن الناس الخ (الدر مع الرد: 4/244، کوئٹہ)

    نفع کی کمائی کی زکاة ادا کرے اور مستحقین کے لئے اس کا لینا جائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند