متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 604746
ڈیوٹی کیلئے تاخیر سے پہنچنا
درج مسئلے میں آپ کی رہنمائی درکارہے ۔میں ایک سرکاری یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرتاہوں جو میرے گھر سے تقریبًا تیس پینتیس کلومیٹر دورہے جہاں مجھے روزانہ آنا جانا پڑتاہے ۔ ڈیوٹی حاضری کا وقت صبح آٹھ بجے ہے ۔نمازفجر باجماعت ادائیگی ، تلاوت قرآن مجید ،اشراق ، چائے ناشتہ اور بیمارہونے کی وجہ سے دوائیوں کے استعمال کی وجہ سے اتنی دیر ہوجاتی ہے کہ دفتر مقررہ وقت یعنی آٹھ بجے سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دیر پہنچتاہوں۔ میں اپنی پوری کوشش کرتاہوں کہ مقررہ وقت پر پہنچوں لیکن دوتین گاڑیاں بدلتے وقت اور راستے میں ٹریفک کی ہجوم کی وجہ سے دیر ہوہی جاتی ہے ۔ میری ڈیوٹی کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ زیادہ کام نہیں ہوتا بس کچھ معمول کا کام ہوتاہے کبھی کام ہوتاہے اور کبھی نہیں ہوتا یعنی میرا ڈیوٹی کیلئے تاخیر سے پہنچنے سے میرے کام پر کچھ خاص اثر نہیں پڑتا ۔کیونکہ جوبھی کام ہوتاہے وہ میں اسی دن باقی وقت دورانیہ میں مکمل کردیتاہوں لیکن دفتر تاخیر سے پہنچنے سے میرے ضمیر پر بوجھ ہوتاہے میراسوال یہ ہے کہ یہ جو میں گھنٹہ ڈیرھ گھنٹہ دفتر تاخیر سے پہنچتاہوں کیا اس کی تنخواہ میرے لئے حلال ہے یا حرام ہے ؟ اگر حرام ہے تو کیا صرف اسی وقت کی تنخواہ حرام ہے یا اس کی وجہ سے میری ساری تنخواہ حرام ہوجاتی ہے ۔
برائے مہربانی تفصیلی جواب دے کر مشکورفرماویں۔
جواب نمبر: 604746
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 924-250T/D=10/1442
کام کی تکمیل کے ساتھ مقررہ وقت میں حاضری بھی مقصود ہوتی ہے جس کے الگ مقاصد و مصالح ہیں ایسی صورت میں مسلسل تاخیر سے پہونچنا وہ بھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر کرنا یقینا کوتاہی ہے۔ اب یا تو ذمہ داران سے ضابطہ میں اس کی اجازت حاصل کیجئے ورنہ جتنے وقت کی کوتاہی ہوتی ہے اس کے مقابل تنخواہ پاکیزہ نہ ہوگی۔ پوری تنخواہ پر حرام ہونے کا حکم نہیں ہے کوتاہی کے مقابل تنخواہ صدقہ کردیں یا ادارہ میں کسی عنوان سے داخل کردیں۔
ویل للمطففین الآیة کے ضمن میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: مزدور اور ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے اس میں وقت چرانا اور کم کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ تفصیل کے لئے معارف القرآن سورة التطفیف کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند