• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 604270

    عنوان:

    مورتی کے ڈیزائن والا فرنیچر یا لکڑی کا مندر بیچنا؟

    سوال:

    میرا سوال یہ ہے کہ میں ایک چھوٹا تاجر ہوں، بہت سے لوگ مجھ سے لکڑی کے مندر مانگتے ہیں، میں انہیں منع کردیتاہوں، اور کچھ آدمی مورتی کا ڈیژائن والا فرنیچر مانگتے ہیں، میں انہیں بھی منع کردیتاہوں، ، اب آپ میری قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں، میں صحیح یا غلط؟ اور ایک بات یہ کہ میں اگر خود نہ بنا کر کسی اور سے خرید کر یہ سب آئٹم مندر اور مورت وغیرہ بیچوں تو اس کا پروفٹ میرے لیےء حلال ہے یا حرام؟اور مندر کے اندر اور سامان (مندر والوں کو ) جیسے کرسی ٹیبل وغیرہ سیل کرنا کیسا ہے؟

    یہ فتوی پوری مارکیٹ میں جائے گا سہارنپور میں، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی ، رہنمائی فرمائیں ، اللہ آپ کو صحت و تندرستی کے ساتھ عمر میں برکت دے، کیامیں اسے پرنٹ کرکے مارکیٹ میں تو لگوا سکتاہوں؟

    جواب نمبر: 604270

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:727-174TN/N=1/1443

    (۱): مسلمان کے لیے شرک اور بت پرستی کے کسی کام میں غیر مسلموں کا تعاون کرنا یا گناہ کے کسی بھی کام میں دوسروں کا تعاون کرنا جائزنہیں ہے، قرآن کریم میں صاف طور پر اس سے منع کیا گیا ہے ؛ لہٰذا آپ جو گاہکوں کو لکڑی کا مندر اور مورتی کی ڈیزائن والا فرنیچر بنانے سے منع کردیتے ہیں، صحیح کرتے ہیں، اس میں کچھ غلط نہیں ۔

    قال اللّٰہ تعالی :﴿ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان﴾ (سورة المائدة، رقم الآیة: ۲)۔

    قال العلامة المفتي محمد شفیع رحمہ اللّٰہ تعالی في ”تفصیل الکلام في مسئلة الإعانة علی الحرام“:وإن لم یکن -السبب- محرکا وداعیا؛ بل موصلا محضا، وھو مع ذلک سبب قریب بحیث لایحتاج في إقامة المعصیة بہ إلی إحداث صنعة من الفاعل کبیع السلاح من أھل الفتنة وبیع العصیر ممن یتخذہ خمراً وبیع الأمرد ممن یعصي بہ وإجارة البیت ممن یبیع فیہ الخمر أو یتخذھا کنیسة أو بیت نار وأمثالھا، فکلہ مکروہ تحریما بشرط أن یعلم بہ البائع والآجر من دون تصریح بہ باللسان فإنہ إن لم یعلم کان معذوراً، وإن علم وصرح کان داخلاً فی الإعانة المحرمة (جواہر الفقہ، ۲: ۴۴۷، وص: ۴۵۵، ۴۵۶أیضاً ، ط: قدیم)۔

    والثالث بیع أشیاء لیس لھا مصرف إلا فی المعصیة ……ففي جمیع ھذہ الصورة قامت المعصیة بعین ھذا العقد والعاقدان کلاھماآثمان بنفس العقد إلخ (المصدر السابق، ص: ۴۴۲)۔

    مستفاد: وفي المحیط: بیع المکعب المفضض للرجل إن لیلبسہ یکرہ؛ لأنہ إعانة علی لبس الحرام، وإن إسکافاً أمرہ إنسان أن یتخذ لہ خفاً علی زي المجوس أو الفسقة أو خیاطاً أمرہ أن یتخذ لہ ثوباً علی زي الفساق یکرہ لہ أن یفعل؛ لأنہ سبب التشبہ بالمجوس والفسقة اھ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع وغیرہ، ۹: ۵۶۲)۔

    فإذا ثبت کراھة لبسھا -لبس خاتم الذھب والحدید والصفر وغیرھا-للتختم ثبت کراھة بیعھا وصیغھا لما فیہ من الإعانة علی ما لا یجوز، وکل ما أدی إلی ما لا یجوز لا یجوز، وتمامہ في شرح الوھبانیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل اللبس، ۹: ۵۱۸، ۵۱۹)۔

    ألا تری أنا نقرھم علی الصلیب ولا یستحق صانعہ أجرة ونقرھم علی التوراة والإنجیل ولو اشتروھا أواستأجروا من یکتبھا لم نحکم بصحتہ فکذلک الترمیم إذا مکناھم منہ لم یحل للسطان ولا للقاضي أن یقول لھم: افعلوا ذلک ولا أن یعینھم علیہ ولا یحل لأحد من المسلمین أن یعمل لھم فیھم ولو استأجروا وترافعوا إلینا حکمنا ببطلان الإجارة ولا نزید علی مجرد التمکین بمعنی التخلیة وترکھم وما یدینون، قال الشارح: وھذا التحقیق الذي ذکرہ الإمام السبکي ھو مراد الشیخین والأصحاب ولا یجوز فھم سواہ، واللہ أعلم انتھی (الأثر المحمود لقھر ذوی العھود للشرنبلالي ص: ۴۴، ۴۵)۔

    (۲): دوسروں سے خرید کر بھی لکڑی کا مندر یا مورت وغیرہ فروخت کرنا جائز نہیں اور اس کا نفع بھی کراہت سے خالی نہیں؛ لہٰذا مسلمانوں کو اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

    (۳): کرسی، ٹیبل وغیرہ عام استعمال کی چیزیں ہیں، اُنھیں فروخت کرنے کی گنجائش ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند