• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 604158

    عنوان:

    ادارے کا زائد کھانا اپنے تصرف میں لانا کیسا ہے ؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں۔! میں پی آئی اے میں سیکورٹی گارڈ ہوں ،میری ڈیوٹی ادارے کے مختلف ڈیپارٹمنت میں لگتی رہتی ہے ، ہمارے پی آئی اے میں ڈیپارٹمنٹ فلائٹ کچن کا بھی ہے جس میں جہاز کے مسافروں کے لیے کھانے کا سامان تیار کیا جاتا ہے ،بسا اوقات میری ڈیوٹی اس کھانے پہنچانے والی گاڑی میں بطورِ گارڈ کے بھی ہوتی ہے ۔ عرض یہ ہے کہ جو کھانے کا سامان فلائٹ کے مسافروں کو کھلایا جاتا ہے اس میں کچھ کھانا بچ جاتا ہے اور اُس کھانے کی قیمت مسافر بذریعہ ٹکٹ ادا کر چکے ہوتے ہیں۔ہمارا محکمہ کہتا ہے کہ جو بچا ہوا کھانا جہاز سے واپس آئے اس کو واپس فلائٹ کچن میں لا کر جمع کردیا جائے ۔ پھر آگے محکمہ اس کھانے کوکوڑے دان میں پھینک دیتا ہے ، اور اس کوڑے دان کو صفائی والے لوگ آ کر لے جاتے ہیں چاہے کوئی بھی سامان ہومثلاً کھانا ،برتن وغیرہ، پھر محکمہ ان صفائی والوں سے بذریعہ ٹھیکہ یا کسی اور معاہدے کے تحت فروخت کر دیتا ہے ، اور وہ صفائی والے انہیں پیسے ادا کر دیتے ہیں۔ رہا ہم ورکرز کا مسئلہ کہ آیا جو کھانا جہاز سے بچا ہواآتا ہے اور اسے کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا جاتا ہے اگرچہ اس کی قیمت محکمہ کو مل رہی ہوتی ہے ، ہم ورکرز اس کھانے کو کچرے میں ڈالنے کے بجائے کھا لیا کریں تو یہ کیسا ہے ؟ آیا یہ ہمارے لیے حلال ہو گا یا نہیں؟ بعض ورکرز اس نیت سے کھاتے ہیں کہ جب اس کھانے کی قیمت مسافروں نے بذریعہ ٹکٹ ادا کر دی ہے تو پھر کھانا مسافروں کا ہوا نا کہ محکمہ کا،مگر محکمہ کہتا ہے اس کو واپس فلائٹ کچن میں جمع کروادیا جائے ۔ نیز یہ بھی ارشاد فرمادیں کہ اگر وہ کھانا ہمارے لیے کھانا جائز نہ ہو تو پھر بھی اگر کوئی شخص برسوں سے اُسے کھاتا آرہا ہو تو اس کی تلافی کی کیا صورت ہوگی؟ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 604158

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 804-543/SN=08/1442

     صورت مسئولہ میں ورکرز پر ضروری ہے کہ وہ طے شدہ ذمے داری کی انجام دہی کریں، بچا ہوا کھانا نہ کھائیں اور اب تک جو کچھ کھایا ہے، اس سلسلے میں بااختیار حکام کو اطلاع دے کر معاف کرالیں، یا پھر اس کی قیمت (بچے ہوئے کھانے کی حیثیت سے) متعلقہ شعبہ کو کسی بہانے سے ادا کردیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند