• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 603605

    عنوان:

    بغیر دعوت کے کھانا کھانا

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتی صاحب کسی کے یہاں بغیر دعوت کے کھانا کھانا کیسا ہے - [x] اک دوست کی اک جگہ دعوت تھی اس کے بہت بار بولنے پر میں بھی ساتھ میں دعوت میں چلا گیا تو میرا دعوت میں جانا کیسا ہوگا کیا وہ کھانا میرے لئے حلال ہے اور اگر کھا لیا ہو تو اب کیا کروں؟

    جواب نمبر: 603605

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:709-616/L=8/1442

     مذکورہ بالا صورت میں اگر آپ کی دعوت نہیں تھی تو آپ کے دوست کے اصرار کرنے پر آپ کا دعوت میں جانا درست نہیں تھا، حدیث شریف میں ہے :” جو شخص بغیر بلائے دعوت میں شریک ہوا وہ چور بن کر داخل ہوا اور لٹیرا بن کر نکلا “ اگر آپ دعوت میں شریک ہوگئے تھے تو آپ کے لیے مناسب یہی تھا کہ کھانانہ کھاتے یا مالک کو اپنے آمد کی اطلاع دے کر ان سے اجازت لے لیتے ،اور کھالینے کی صورت میں آپ کو چاہیے کہ مالک کو کسی طرح اس کی اطلاع کردیں اور آئندہ اس کا خیال رکھیں کہ بلا دعوت ہرگز کسی کی دعوت میں شریک نہ ہوں ۔

    أما الحدیث الأول ففیہ أن المدعو إذا تبعہ رجل بغیر استدعاء ینبغی لہ أن لایأذن لہ وینہاہ وإذا بلغ باب دار صاحب الطعام أعلمہ بہ لیأذن لہ أو یمنعہ وأن صاحب الطعام یستحب لہ أن یأذن لہ إن لم یترتب علی حضورہ مفسدة.[شرح النووی علی مسلم 13/ 208) لا یجوز أن یدخل إلی الولائم وغیرہا من الدعوات من لم یدع إلیہا، فإن فی ہذا دنائة ومذلة، ولا یلیق ذلک بالمؤمن، وفی الحدیث من روایة ابن عمر مرفوعا من دخل علی غیر دعوة دخل سارقا وخرج مغیرا الحدیث .ومن یفعل ذلک یسمی الطفیلی.وعلی ہذا فالتطفل حرام عند جمہور الفقہاء، ما لم یکن غیر المدعو تابعا لمدعو ذی قدر یعلم أنہ لا یحضر وحدہ عادة، فلا یحرم، لأنہ مدعو حکما بدعوة متبوعہ․ (الموسوعة الفقہیة الکویتیة 20/ 335- 336)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند