• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 602993

    عنوان:

    جانوروں کا چارہ اسٹاک کرنا

    سوال:

    توڑی یا جانوروں کا چارہ کاسٹاک کرنا مہنگا ہونے کیلئے کیسا ہے ؟

    جواب نمبر: 602993

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:566-177T/sn=7/1442

     توڑی اور جانوروں کا چارہ اسٹاک کرنے سے اگر اہل شہرکو معتد بہ ضرر ہوتا ہو تو ایسا کرنا شرعا مکروہ وناجائز ہے، یہ بھی احتکار ممنوع کی شکل ہے، جس پر احادیث میں وعیدیں آئی ہیں، اگر ضرر نہ ہو بایں طور کہ چارہ عام طور پر شہر میں دستییاب ہو اور بہت زیادہ گراں نہ ہو تو شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ احتکار ممنوع نہیں ہے ۔

    (و) کرہ (احتکار قوت البشر) کتبن وعنب ولوز (والبہائم) کتبن وقت (فی بلد یضر بأہلہ) لحدیث الجالب مرزوق والمحتکر ملعون فإن لم یضر لم یکرہ․ (الدر المختار) (قولہ وکرہ احتکار قوت البشر) الاحتکار لغة: احتباس الشیء انتظارا لغلائہ والاسم الحکرة بالضم والسکون کما فی القاموس، وشرعا: اشتراء طعام ونحوہ وحبسہ إلی الغلاء أربعین یوما لقولہ - علیہ الصلاة والسلام - من احتکر علی المسلمین أربعین یوما ضربہ اللہ بالجذام والإفلاس وفی روایة فقد برء من اللہ وبرء اللہ منہ قال فی الکفایة: أی خذلہ والخذلان ترک النصرة عند الحاجة اہ وفی أخری فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین لا یقبل اللہ منہ صرفا ولا عدلا الصرف: النفل، والعدل الفرض شرنبلالیة عن الکافی وغیرہ وقیل شہرا وقیل أکثر وہذا التقدیر للمعاقبة فی الدنیا بنحو البیع وللتعزیر لا للإثم لحصولہ وإن قلت المدة وتفاوتہ بین تربصہ لعزتہ أو للقحط والعیاذ باللہ تعالی در منتقی مزیدا، والتقیید بقوت البشر قول أبی حنیفة ومحمد وعلیہ الفتوی کذا فی الکافی، وعن أبی یوسف کل ما أضر بالعامة حبسہ، فہو احتکار وعن محمد الاحتکار فی الثیاب ابن کمال․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/ 398، بیروت) نیز دیکھیں: فتاوی دارالعلوم دیوبند، 14/385، سوال:232، اور فقہ البیوع وغیرہ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند