• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 602939

    عنوان:

    اشتہارات میں تصاویر کا استعمال

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بار میں : آج کی اس ڈیجیٹل دنیا میں تصاویر اتنی عام ہو گئی ہیں کہ مشکل سے کچھ گھر ہوں گے جہاں تصویر نہ پائی جاتی ہو، اگر کوئی اپنی مرضی سے نہ بھی رکھے تو اشیاء کی خریداری میں تصاویر بھی چپکی ہوئی مفت مل جاتی ہیں۔ ۱)اب سوال یہ ہے کہ زید کی ایک دکان ہے کاسمیٹک کی اس میں کئی طرح کے پروڈکٹ زید بیچتا ہے اور ۸۰فیصد اشیاء پر جاندار کی تصاویر بنی ہوتی ہیں (بالخصوص عورتوں کی تصویر)، اب زید ان تصاویر کو ہٹا بھی نہیں سکتا کیونکہ اس صورت میں لوگ اس چیز کو خریدنے سے انکار کریں گے ، اور اگر کسی دوسری کمپنی کے پروڈکٹ دیکھنے جاتا ہے تو کہیں کوالٹی خراب نکلتی اور کہیں دام مہنگے ہوتے ہیں، اب اگر زید کاسمیٹک چھوڑ کر فیشن انڈسٹری میں جاتا ہے تو وہاں بھی ہر کپڑے کے پیکیج میں ایک ماڈل کی تصویر ہے ، اب زید کو کیا کرنا چاہیے ؟ انہیں تصاویر والے پروڈکٹ کو بیچ کر دکان چلائے ؟ یا کوئی اور صورت اختیار کرے ؟ اگر زید جیسے ہزاروں مسلمان تصاویر سے بچنے کی غرض سے اچھے خاصے بڑے کاروبار چھوڑ کر چھوٹے موٹے کاموں میں لگ جائیں تب تو مسلمان معاشی اعتبار سے مزید کمزور ہوتے جائیں گے ، اور مینوفیکچرنگ و پروڈکشن سے منسلک ہونا چاہیں جس میں تصاویر کا رکھنا نہ رکھنا ان کے اختیار میں ہو تو اتنا بجٹ نہیں مل پاتا تو اس مسئلے کا شرعی حل کیا ہو سکتا ہے ؟ ۲)اگر زید کپڑے کی مینوفیکچرنگ کرتا ہے اور پیکیج کے اوپر اس کپڑے کی ماڈل کی سر کٹی تصویر چسپاں کرنا چاہتا ہے تو کیا اسکی اجازت ہے ؟ اگر تصویر سر کٹی نہ ہو بلکہ صرف ناک،منہ،آنکھ غائب ہوں تو کیا اس کی اجازت ہوگی ؟ تصویر مرد و عورت دونوں کی ہو سکتی ہے اگر زنانہ کپڑے ہوں تو عورت (ماڈل) کی تصویر اور اگر مردانہ کپڑے ہوں تو مرد (ماڈل) کی تصویر، تو کیا اسکی اجازت ہے ؟

    امید ہے کہ آپ جلد از جلد جواب ارسال فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے ۔

    جواب نمبر: 602939

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:606-479/N=8/1442

     (۱): کاسمیٹک یا فیشن انڈسٹری کے پروڈکٹ یا پیکیج پر جو تصویریں پرنٹ ہوتی ہیں، وہ پروڈکٹ یا پیکیج کی خرید وفروخت میں محض تابع اور ضمنی ہوتی ہیں، مقصود بالذات نہیں ہوتیں، نیز موجودہ نظام مارکیٹنگ میں اس سے بچنا آسان بھی نہیں ہے؛ لہٰذا مارکیٹ میں ایسے پروڈکٹس یا پیکجس کی خرید وفروخت کی گنجائش ہوگی ؛ البتہ مسلمان کو چاہیے کہ تصاویر بالخصوص عورتوں اور لڑکیوں کی تصاویر سے حتی الامکان اپنی نگاہوں کی حفاظت کرے۔

    امام ربانی فقیہ النفس حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ ایک فتوے میں ارقام فرماتے ہیں:

    ”اگر ڈبیہ پر تصویر ہو اور اصل مقصود وہ شے ہے نہ ڈبیہ تو اس بیع میں مضائقہ نہیں، اور اگر بالفرض ڈبیہ بھی مقصود ہوتو اُس پر جو تصویر ہے، وہ مقصود نہیں ہے؛ اس لیے اس کی بیع میں مضائقہ نہیں“ (فتاوی رشیدیہ، ص: ۴۹۲، مطبوعہ: گلستاں کتاب گھر، دیوبند)۔

    حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نے ایک فتوے میں تحریر فرمایا:

    ”ایسی اشیا جن میں تصویر کا بیچنا، خریدنا مقصود نہ ہو، جیسے: دیا سلائی کے بکس کہ ان کو ان پر تصویر بنی ہوتی ہے؛ مگر تصویر کی بیع وشرا مقصود نہیں ہوتی تو ایسی چیزوں کا خریدنا، بیچنا مباح ہوسکتا ہے“ (کفایت المفتی جدید،کتاب الحظر والإباحة،بیسواں باب: فوٹو، مصوری اور تصویر، ۹: ۲۳۵، جواب: ۳۳۱، مطبوعہ:دار الاشاعت، کراچی)۔

    (۲): تصویر میں اصل سر اور چہرہ ہے، آنکھ، ناک اصل نہیں ہیں؛ لہٰذا اگر سر اور چہرہ موجود ہے تو محض آنکھ یا ناک نہ ہونا جواز کے لیے کافی نہیں، نیز عورت ماڈل کی تصویر سر کے بغیر کراہت سے خالی نہیں؛ کیوں کہ وہ بھی شہوت کو بھڑکانے والی ہوتی ہے؛ البتہ مرد ماڈل کی سر کٹی ہوئی تصویر کی گنجائش ہوگی ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند