• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 602361

    عنوان:

    جعلی ڈگری پر نوکری کرنے والے كی تنخواہ كا حكم

    سوال:

    اگر کوئی جعلی ڈگری پر نوکری کر رہا ہے تو تنخواہ حرام ہے یا حلال؟

    جواب نمبر: 602361

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:422-75T/N=6/1442

     جعلی وفرضی ڈگری پر کوئی نوکری یا ملازمت حاصل کرنا ناجائز وحرام ہے، کسی مسلمان کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ اور اگر کسی مسلمان نے ماضی میں کبھی ایسا کام کرلیا اور اب وہ بر سر ملازمت ہے تو اس کی تنخواہ کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ اگر وہ ملازمت میں مفوضہ عہدے کی اہلیت وصلاحیت رکھتا ہے اور متعلقہ ذمہ داریاں صحیح طور پر انجام دیتا ہے تو اس کی تنخواہ حرام وناجائز نہ ہوگی(فتاوی محمودیہ جدید ۲۴: ۲۲۶، سوال:۲۶۶، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل،آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ ۷: ۲۱۲،مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، مسائل سود: مرتبہ حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی دامت برکاتہم العالیہ ص ۲۷۱، ۲۷۲، مطبوعہ: حراء بک ڈپو دیوبند)؛ البتہ اس نے جو جعلی ڈگری کی بنیاد پر ملازمت حاصل کی ہے، اس پر توبہ واستغفار کرتا رہے۔

    عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا کذب العبد تباعد عنہ الملَکُ میلاً من نتن ما جاء بہ إلخ (سنن الترمذي، رقم: ۱۹۷۲)۔

    عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: … إیاکم والکذب؛ فإن الکذب یہدي إلی الفجور، وإن الفجور یہدي إلی النار، وما یزال الرجل یکذِبُ ویتحریَّ الکذب حتی یُکتَب عند اللّٰہ کَذَّابًا(الصحیح لمسلم، کتاب البر والصلة، باب قُبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ۲:۳۳۶، رقم: ۲۶۰۷ط:بیت الأفکار الدولیة، سنن الترمذي، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في الصدق والکذب ۲:۸)۔

    عن أبي ہریرة رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرَّ علی صبرةٍ من طعام، فأدخل یدہ فیہا، فنالت أصابعہ بللاً، فقال: یا صاحب الطعام ما ہٰذا؟ قال: أصابتہ الماء یا رسول اللّٰہ! قال: أفلا جعلتہ فوق الطعام حتی یراہ الناس؟ ثم قال: ”من غش فلیس منا“ (سنن الترمذي،أبواب البیوع،باب ما جاء في کراہیة الغش في البیوع ۱:۴۵، رقم: ۱۳۱۵)۔

    لافرق بین الکذب بالکتابة أو التکلم (تکملة رد المحتار ۱: ۱۵۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    عن أسماء قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ”المتشبع بما لم یعط کلابس ثوبي زور“ (الصحیح للبخاري، کتاب النکاح، باب المتشبع بما لم ینل وما ینھی من افتخار الضرة، ص: ۷۸۵، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند، الصحیح لمسلم، کتاب الآداب والزینة، باب النھي عن التزویر فی اللباس وغیرہ والتشبع بما لم یعط، ۲: ۲۰۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند، مشکاة المصابیح، ص: ۲۸۱، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    قال العلماء: معناہ المتکثر بما لیس عندہ بأن یظھر للناس أن عندہ ما لیس عندہ، یتکثر بذلک عند الناس ویتزین بالباطل فھو مذموم کما یذم من لبس ثوبي زور۔قال أبو عبید وآخرون: ھو الذي یلبس ثیاب أھل الزھد والعبادة والورع، ومقصودہ أن یظھر للناس أنہ متصف بتلک الصفة ویظھر من التخشع والزھد أکثر مما في قلبہ فھذہ ثیاب زور وریاء، وقیل: ہو کمن لبس ثوبین لغیرہ وأوہم أنھما لہ (شرح النواوي علی الصحیح لمسلم، ۲: ۲۰۶)۔

    ونقل ابن حجر أیضاً ما قال ابن عبید وآخرون في فتح الباري وقال عن الزمخشري فی الفائق: المتشبع أي المتشبہ بالشبعان ولیس بہ، واستعیر للتحلي بفضیلة لم یرزقھا، وشبہ بلا بس ثوبي زور أي: ذي زور، وھو الذي یتزیا بزي أھل الصلاح ریاء (فتح الباری، ۹: ۳۹۴، ۳۹۵، ط: دار السلام، الریاض)۔

    ھي - الإجارة- شرعاً تملیک نفع بعوض(تنویر الأبصار مع الدر والرد، أول کتاب الإجارة، ۹: ۴، ۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند