• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 602202

    عنوان:

    تمباكو كا كاروبار كرنا كیسا ہے؟

    سوال:

    ۱) تمباکو کی جو لوگ اپنے کھیتوں میں، فصل اگاتے ہیں ، اور اسکا کاروبار خرید و فروخت کرتے ہیں، کیا یہ جائز ہے ۔ کیا اسکی کماء حلال ہے ۔

    ۲) جو حضرات لیز پر گھر لیتے ہیں، جیسے تین لاکھ پر چند سال کے لئے گھر لیا بغیر کرائے کے ، اور اتنے سال ختم ہو جانے پر تین لاکھ روپے واپس مل جاتے ہیں، کیا یہ صورت جائز ہے ۔

    ۳) اگر کرائے دار تین لاکھ لیز پر جب گھر لے رہا ہو اسی وقت کہ دے کہ ۰۰۵/۰۰۰۱روپے کرائے پر دوں گا تو کیا یہ شکل جائز ہوگی ۔

    ۴) اگر کوئی شخص، قرض لیا ہے ، جب واپس کر رہا ہے تو سود کے ساتھ واپس کر رہا ہے ، تو یہ آدمی سود دینے والا بنا ، تو کیا یہ جو کچھ کھائے گا اور پیئے گا ، کیا وہ سود کھانے کی طرح ہی ہوا۔

    ۵) کسی کے کاروبار میں سودی لین دین بھی ہو ، اور اسکا حلال کوئی اور کاروبار ہو اسکا کیا حکم ہے ، کیا اسکے گھر کھانا پینا جائز ہے ۔

    ۶) جو سودی لین دین کرتے ہیں کیا انکے گھر کھانا پینا جائز ہے ۔

    ۷) آدمی کے انتقال کے بعد، انتقال سے قبل نہیں ،انتقال کے بعد ، میت کوکس طرح کس رخ میں لٹانا مسنون ہے ، پیروں کو قبلہ کی طرف کرکے سر کو تھوڑا اٹھائں یا چہرے کو قبلہ کی طرف کرے ، حدیث سے دلیل کی سخت ضرورت ہے ۔ مہربانی فرما کر اللہ کے لئے مدد فرمائیں۔

    جواب نمبر: 602202

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 391-472/M=07/1442

     (۱) تمباکو کی کاشت اور اس کا کاروبار (خرید و فروخت) مباح ہے؛ البتہ احتراز اولیٰ ہے۔

    (۲، ۳) یہ صورت قرض کے عوض نفع اٹھانے کی ہے اس لیے درست نہیں اور اسی نادرست معاملے پر بنا کرتے ہوئے معمولی کرایہ طے کرلینا بھی درست نہیں، ہاں اگر ازسرنو شریعت کے مطابق الگ معاملہ کیا جائے اور کرایہ اتنا ہو جتنا عرف میں اس جیسے مکان کا ہوتا ہے تو حرج نہیں ورنہ یہ صورت بھی شبہ ربوٰ سے خالی نہیں۔

    (۴) سود دینے والا اگر خود بھی سود کھائے گا تو سود کھانے اور کھلانے دونوں گناہ کا مرتکب ہوگا اور اگر خود سود نہیں کھاتا صرف دوسرے کو سود دیتا ہے تو سود کھلانے کا مرتکب ہوگا۔

    (۵، ۶) اگر حلال آمدنی غالب ہے تو اس کے گھر کھا پی سکتے ہیں اور حرام غالب ہے تو درست نہیں۔

    (۷) جب میت پر موت کے آثار شروع ہوجائیں تو اس وقت اس کا سر شمال کی جانب اور پیر جنوب کی طرف اور رُخ قبلہ کی طرف کردیا جائے یہی افضل اور سنت طریقہ ہے اور یہ بھی جائز و درست ہے کہ چت لٹایا جائے اور پیر قبلے کی طرف ہوں اور سر تکیہ وغیرہ رکھ کر تھوڑا اونچا کردیا جائے اور یہ بھی قول ہے کہ جس طرح سہولت ہو لٹا دیا جائے۔ انتقال کے بعد تو میت کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرنے کا حکم ہے۔ درمختار میں ہے: یوجہ المحتضر وعلامتہ استرخاء قدمیہ، واعوجاج منخرہ وانخساف صدغیہ ”القبلہ“ علی یمینہ ہو السنة وجاز ”الاستلقاء“ علی ظہرہ ”وقدماہ إلیہا“ وہو المعتاد في زماننا ولکن یرفع رأسہ قلیلاً لیتوجہ للقبلة وقیل یوضع کما تیسر علی الأصح۔ (شامی اشرفی دیوبند: 3/73)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند