• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 602025

    عنوان:

    بچولیے کے طور پر کام کرنا اور اس كے پیسے لینا كیسا ہے؟

    سوال:

    کیا کہتے ہیں مفتیان حضرات قرآن اور حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل کے بارے میں - ایک شخص مثلا اپنا بجلی کا کنکشن کرانے یا دیگر سرکاری ڈیپارٹمنٹ وغیرہ سے کام کرانے کے لیے لئے کسی دوسرے شخص کو متعین کر اس کام کو کرانے کے لیے مثلا دس ہزار روپے طے کرتا ہے متعین شخص اپنا وقت محنت یا پیسہ خرچ کر اس کام کو مثلا 7000روپے میں کرا دیتا ہے تو متعین شخص کو تین ہزار روپے بچتے ہیں- 1) تو اس صورت میں متعین شخص 3 ہزار روپے کو اپنے خرچ میں لے سکتا ہے یا نہیں ؟

    (۲) اگر نہیں خرچ کرسکتا تو متعین شخص نے جو اپنا وقت محنت یا پیسہ خرچ کیا ہے اس کے لئے کیا کرے ؟ براہ کرم، تفصیلی جواب فراہم فرمائیں۔

    جواب نمبر: 602025

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:392-357/sn=6/1442

     (۱،۲) سوال میں ذکر کردہ شکل شرعا جائز ہے ، بس غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے کام نہ لے ۔

    قال فی التتارخانیة: وفی الدلال والسمساریجب أجرالمثل، وما تواضعوا علیہ أن فی کل عشرة دنانیرکذا فذاک حرام علیہم. وفی الحاوی: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجوأنہ لابأس بہ وإن کان فی الأصل فاسدا لکثرة التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجة الناس إلیہ کدخول الحمام وعنہ قال: رأیت ابن شجاع یقاطع نساجا ینسج لہ ثیابا فی کل سنة.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین: 9/87، کتاب الإجارة، مطبوعة: مککتبة زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند