• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 601651

    عنوان:

    اپنا نطفہ بیوی كے رحم میں بذریعہ انجكشن ڈالنا؟

    سوال:

    اپنے خود کے نطفہ انجکشن کے ذریعے بیوی کے رحم سے اولاد پیدا کرنا جائز ہے کیا؟

    جواب نمبر: 601651

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:312-63T/N=5/1442

     حصول اولاد کے لیے مصنوعی یا خارجی بار آوری کا طریقہ اختیار کرنا اسلام میں جائز نہیں ہے اگرچہ اس طریقہ کار میں خود میاں بیوی کا نطفہ اور بیضہ لیا جائے اور اُسے ملاکر مشین میں رکھا جائے، پھر بیوی کی بچہ دانی میں منتقل کیا جائے؛ کیوں کہ حصول اولاد کا یہ طریقہ غیر فطری ہونے کے علاوہ درج ذیل ۲/ اہم شرعی خرابیوں پر مشتمل ہوتا ہے:

    پہلی خرابی:حصول اولاد کے اس طریقہ کار میں ڈاکٹر، عورت کی شرمگاہ میں جب مخلوط مادہ رکھتا ہے تو اس میں ضرورت شرعیہ کے بغیر اجنبی مرد یا اجنبیہ عورت کے سامنے شرمگاہ کھولنی ہوتی ہے اور ڈاکٹر لوگ اسے دیکھتے ہیں اور اس میں ہاتھ بھی لگاتے ہیں ، جو شریعت اسلام میں ضرورت واضطرار کے علاوہ عام حالات میں جائز نہیں۔ اور حصول اولاد کی یہ کوشش شرعی اعتبار سے ضرورت کے دائرہ میں بھی نہیں آتی ؛ کیوں کہ یہ جلب منفعت کی شکل ہے ، دفع مضرت یا علاج ومعالجہ کی شکل نہیں ہے؛ اس لیے جب اس طریقہ کار میں کشف عورت وغیرہ لازمی ہے تو شرعاً حصول اولاد کے لیے یہ صورت اختیار کرنا جائز نہ ہوگا۔

    ولا یجوز لھا أن تنظر ما بین سرتھا إلی الرکبة إلا عند الضرورة، بأن کانت قابلة فلا بأس لھا أن تنظر إلی الفرج عند الولادة، وکذا لا بأس أن تنظر إلیہ لمعرفة البکارة في امرأة العنین، والجاریة المشتراة علی شرط البکارة إذا اختصما، وکذا إذا کان بھا جرح أو قرح في موضع لا یحل للرجال النظر إلیہ فلا بأس أن تداویھا، إذا علمت المداواة، فإن تعلم تتعلم ثم تداویھا، فإن توجد امرأة تعلم المداواة ولا امرأة تتعلم وخیف علیھا الھلاک أو بلاء أو وجع لا تحملہ یداویھا الرجل، لکن لا یکشف منھا إلا موضع الجرح ویغض بصرہ مااستطاع (بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،۲:۴۹۹،ط: مکتبة زکریا،دیوبند)۔(کتاب الاستحسان، ۶: ۴۹۹، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔

    ومثلہ فی الدر والرد (کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس، ۹:۵۳۲،۵۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وملتقیالأبحر، ومجمع الأنھر، والدر المنتقی (۴:۱۹۹،۲۰۰ط دار الکتب العلمیة، بیروت)، والفتاوی الھندیة (۵:۳۳۰،ط:المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، والمختار والاختیار لتعلیل المختار (۴:۱۰۸،۱۰۹ط دار الکتب العلمیة، بیروت)، وتبیین الحقائق (۶:۱۷،۱۸،ط: الممکتبة الإمدادیة ملتان)، والموسوعة الفقہیة (۴۰:۳۶۶-۳۶۸) وغیرھا من کتب الفقہ والفتاوی۔

    ذکر شمس الأیمة الحلواني رحمہ اللہ تعالی في شرح کتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم یکن ثمة ضرورة ولکن فیھا منفعة ظاھرة بأن یتقوی بسببھا علی الجماع لا یحل عندنا………کذا فی الذخیرة (الفتاوی الھندیة ، ۵: ۳۳۰، ط:المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، ومثلہ في رد المحتار(کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس،۹:۵۳۳) وغیرہ۔

    دوسری خرابی:حصول اولاد کے اس طریقہ کار میں شوہر اپنا نطفہ ان لوگوں کی تحویل میں دیتا ہے ، جن کے پاس اس کام کے لیے آئے ہوئے بہت سے نطفے ہوتے ہیں، جس میں اس بات کے احتمال سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ان جمع شدہ نطفوں میں رد وبدل کردیا جائے یا ہوجائے ،یا مرد کے نطفہ کا کچھ حصہ بچاکر کسی دوسرے شخص کے کام میں لایا جائے وغیرہ؛کیوں کہ وہ لوگ دین دار اور احکام شرع سے واقف تو ہوتے نہیں، نیز شریعت میں نسب کے باب میں جو نزاکت ہے،وہ لوگ اس سے بھی عام طور پر واقف نہیں ہوتے ؛ جب کہ اس باب میں اس درجہ نزاکت رکھی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے استقرار حمل کا جو طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ اس میں خود میاں بیوی بھی اپنا نطفہ اور بیضہ اور ان کا باہمی اختلاط نہیں دیکھتے ،چہ جائیکہ کسی غیر مرد یا عورت کا اس میں کوئی عمل دخل ہو یا نطفہ اور بیضہ ان کی تحویل میں جائے۔

    خلاصہ یہ کہ حصول اولاد کے لیے مصنوعی یا خارجی بار آوری کا طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اکابر علمائے دیوبند کے فتاوی سے یہی معلوم ہوتا ہے (ملاحظہ فرمائیں: فتاوی محمودیہ ، ۱۸: ۳۲۲-۳۲۷،سوال:۸۸۳۲- ۸۸۳۴،مطبوعہ:ادارہ صدیق،ڈابھیل، فتاوی رحیمیہ،۵:۴۸۴، مطبوعہ:مکتبہ احسان دیوبند،۱۰: ۱۷۹، مطبوعہ:دار الاشاعت، کراچی،احسن الفتاوی، ۸: ۲۱۵،مطبوعہ:دار الاشاعت دیوبند،منتخبات نظام الفتاوی، ۱: ۳۳۷،۳۳۹،مطبوعہ:ایفا،پبلی کیشنز،دہلی، اور محمود الفتاوی، ۴: ۷۲۲، ۷۲۳وغیرہ)؛ لہٰذا اولاد سے محروم جوڑے کو چاہیے کہ وہ علاج اور دعا جاری رکھے ، ممکن ہے کہ اللہ تعالی عورت کو استقرار حمل کے قابل بنادیں یا اولاد کے لیے دوسرا نکاح کرلیا جائے یا صبر کیا جائے؛ کیوں کہ اللہ اپنے بہت سے بندوں کو اپنی حکمت ومصلحت کی بنیاد پر اولاد کی نعمت نہ دے کر صبر کا موقعہ عطا فرماتے ہیں؛ تاکہ وہ صبر کے ذریعہ اللہ کا قرب ونزدیکی حاصل کریں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: یھب لمن یشاء إناثا ویھب لمن یشاء الذکور ویجعل من یشاء عقیماً إنہ علیم قدیر

    قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یحل لامریٴ یوٴمن باللہ والیوم الآخر أن یسقي ماء ہ زرع غیرہ (سنن أبي داود، کتاب النکاح، باب في وطی السبایا،۱:۲۹۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    منھا معرفة براء ة رحمھا من ماء ہ؛ لئلا تختلط الأنساب؛ فإن النسب أحد ما یتشاح بہ ویطلبہ العقلاء، وھو من خواص نوع الإنسان ومما امتاز بہ من سائر الحیوان (حجة اللہ البالغہ، ۲: ۱۳)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند