• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 601629

    عنوان:

    چاندی کے قلم سے لکھنے کا حکم

    سوال:

    سوال : حضرت چاندی کے قلم کااستعمال کرنا کیسا ہے میرے پاس چاندی کا ایک قلم ہے تو کیا میں اس سے لکھ سکتا ہوں یا نہیں برائے کرم مدلل جواب سے نوازیں احسان ہوگا۔

    جواب نمبر: 601629

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:299-208/N=5/1442

     مرد یا عورت کسی کے لیے بھی چاندی کا قلم استعمال کرنا جائز نہیں؛ لہٰذا آپ کے پاس جو چاندی کا قلم ہے، آپ اُس سے لکھنے کا کام نہیں کرسکتے۔ اور اگر قلم پر چاندی یا سونے کا صرف پانی چڑھایا گیا ہو تو اُس سے لکھنے میں کچھ حرج نہیں۔

    ویکرہ أن یکتب بالقلم المتخذ من الذھب أو الفضة أو من دواة کذلک ویستوي فیہ الذکر والأنثی (الفتاوی السراجیة، کتاب الکراھة والاستحسان، باب المتفرقات، ص: ۳۳۵، ط: مکتبة الاتحاد، دیوبند)، ونقلہ عنہ في الفتاوی الھندیة (کتاب الکراھیة، الباب العاشر فی استعمال الذھب والفضة، ۵: ۳۳۴، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    (و)کرہ (الأکل والشرب والادھان والتطیب من إناء ذھب وفضة للرجل والمرأة) لإطلاق الحدیث، (وکذا) یکرہ (الأکل بملعقة الفضة والذھب والاکتحال بمیلھما)وما أشبہ ذلک من الاستعمال کمکحلة ومرآة وقلم ودواة ونحوھا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، ۹: ۴۹۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قولہ: ”للرجل والمرأة“: قال في الخانیة: والنساء في ما سوی الحلي من الأکل والشرب والادھان من الذھب والفضة والعقود بمنزلة الرجال، ولا بأس لھن بلبس الدیباج والحریر والذھب والفضة واللوٴلوٴ أھ۔ قولہ: ”لإطلاق الحدیث“: ھو ما روي عن حذیفة أنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ”لا تلبسوا الحریر ولا الدیباج ولا تشربوا في آنیة الذھب والفضة، ولا تأکلوا في صحافھا؛ فإنھا لھم في الدنیا ولکم في الآخرة “ رواہ البخاري ومسلم وأحمد وأحادیث أخر ساقھا الزیلعي، ثم قال: فإذا ثبت ذلک في الشرب والأکل فکذا في التطیب وغیرہ؛ لأنہ مثلہ في الاستعمال (رد المحتار)۔

    والخلاف في المفضض، أما المطلي فلا بأس بہ بالإجماع بلا فرق بین لجام ورکاب وغیرھما؛ لأن الطلاء مستھلک لا یخلص فلا عبرة للونہ، عیني وغیرہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، ۹: ۴۹۷)۔

    قولہ: ”والخلاف في المفضض“: أراد ما فیہ قطعة فضة فیشمل المضبب، والأظھر عبارة العیني وغیرہ وھي: وھذا الاختلاف في ما یخلص، وأما التمویہ الذي لا یخلص فلا بأس بہ بالإجماع ؛ لأنہ مستھلک فلا عبرة ببقائہ لونا اھ (رد المحتار)۔

    وأما التمویہ الذي لا یخلص فلا بأس بہ بالإجماع کذا في الکافي (الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب العاشر فی استعمال الذھب والفضة، ۵: ۳۳۴)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند