متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 601446
ایک چیز کے دو ریٹ جائز ہیں؟ مطلب نقد میں 70 روپے کی ادھار میں 90 روپے کی، سود کے ذمرے میں تو نہیں آتا؟
جواب نمبر: 601446
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:351-270/L=4/1442
اگر مجلسِ عقد ہی میں ادھارکا معاملہ طے ہوجائے مثلا میں یہ سامان اتنے مہینے کے ادھار پر اتنے روپیے کے عوض خریدتا ہوں تو اس طور پر خرید وفروخت کی گنجائش ہے اگر چہ اس صورت میں نقد کے مقابلے میں ادھار کا ریٹ زائد ہو ؛لیکن اگر مجلسِ عقد میں یہ بات طے نہ ہو اور کسی ایک شق (نقد یا ادھار) پر فریقین کی رضامندی کے بغیر معاملہ کیا جائے تو اس طور مجمل معاملہ کرنا جائز نہیں۔
وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا، وبالنقدکذا، أو قال إلی شہر بکذا أو إلی شہرین بکذا فہو فاسدٌ … وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرّقا حتّٰی قاطعہ علیٰ ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہو جائز الخ (المبسوط للسرخسی ۱۳:۷، ۸، ط: دار المعرفة بیروت) أن للأجل شبہا بالمبیع ألا یری أنہ یزاد فی الثمن لأجل الأجل. (الہدایة: ۳:۷۸)،أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموجّل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موجّل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد.(بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة،ص ۷)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند