متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 59229
جواب نمبر: 59229
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 455-420/Sn=7/1436-U اگر کوئی شخص فال نکالتا ہے یا ستارے دیکھ کر غیب کی باتیں بتلاتا ہے یا کفر وشرک پر مبنی الفاظ سے جھاڑ پھونک یا علااج کرتا ہے تو اس کے پاس جانا اور اس سے علااج کرانا شرعاً جائز نہیں ہے، نجومی اور کاہن کے پاس جانے والوں پر حدیث میں سخت وعید آئی ہے، ”ترمذی“ میں ہے: من أتی ․․․ کاہنًا فقد کفر بما أنزل علی محمّد، رقم: ۱۳۵، باب ما جاء في کراہیة إتیان الحائض) جو شخص مباح ومسنون ادعیہ، آیاتِ قرآنیہ یا کسی اور مباح تدبیر سے روحانی علاج کرتا ہے اس کے پاس جانا اور اس سے علاج کرانا شرعاً جائز ہے بہ شرطے کہ دعا تعویذ کو نافع بالذات نہ سمجھے، بس ایک وسیلہ اور علاج تصور کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائیں پڑھ کر مریض پر دم کرنا ثابت ہے، نیز بعض صحابہٴ کرام سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ دعائیں لکھ کر چھوٹے بچوں کے گلے میں لٹکادیتے تھے۔ عن عوف بن مالک الأشجعي قال: کنا نرقي في الجاہلیّة فقلنا یا رسول اللہ! کیف تری في ذلک؟ فقال: اعرضوا عليَّ رقاکم، لا بأس بالرّقي مال یکن فیہ شرک (مسلم، رقم: ۲۲۰۰، باب لا بأس بالرقی مالم یکن فیہ شرک) وقد أخرج أبوداوٴد عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ أن سول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- کان یعلمہم من الفزع کلمات: ”أعوذ بکلمات اللہ التامّة من غضبہ وشرّ عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضورن، وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعْلقہ علیہ (رقم: ۳۸۹۳، باب کیف الرقی) وفي رد المحتار: ولا بأس بالمعاذات إذا کتب فیہا القرآن أو أسماء اللہ تعالی․ (رد المحتار، ۹/۵۲۳، ط: زکریا) وانظر: المرقاة ۲/۲۸۸۰، ط: بیروت، کتاب الطب والرقی)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند