متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 56614
جواب نمبر: 56614
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 102-102/Sd=3/1436-U
قرض کی جلد از جلد ادائیگی کی احادیث میں بہت تاکید آئی ہے، حتی کہ وسعت کے باوجود ادائیگی قرض میں ٹال مٹول کرنے کو حدیث میں ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے، آپ نے سوال میں جو واقعہ ذکر کیا ہے، محدثین کی صراحت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء ً ان صحابی کی نماز جنازہ پڑھنے سے اس لیے منع کردیا تھا تاکہ لوگوں کو قرض لے کر واپس نہ کرنے کی شناعت کا علم ہوجائے آپ جلد از جلد اپنے قرض کو ادا کرنے کی کوشش کریں اگرچہ آپ کو اپنے گذارے میں کچھ تنگی وترشی برداشت کرنا پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صحابی کے ذمے قرض ہوگیا تھا، آپ نے ان کا سارا مال فروخت کردیا تاکہ ان کا قرض ادا کردیا جائے، حتی کہ وہ صحابی تنہا رہ گئے، ان کے پاس کچھ بھی نہ رہا: وعن سلمة بن الأکوع قال: کنا جلوسا عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذ أتي بجنازة فقالوا: صل علیہا فقال: ہل علیہ دین؟ قالوا: لا فصلی علیہا ثم أتي بالثالثة فقال: ہل علیہ دین؟ قالوا: ثلاثة دنانیر قال: ہل ترک شیئا؟ قالوا: لا قال: صلوا علی صاحبکم قال أبو قتادة: صل علیہ یا رسول اللہ وعلي دینہ فصلی علیہ. رواہ البخاري (مشکاة المصابیح، ص: ۲۵۲، باب الإفلاس والإنظار، الفصل الأول) قال المحشي: قولہ ”صلوا علی صاحبکم“ فیہ زجر وتشدید علی الدَّین والمماطلة في أدائہ، وعن أبی ہریرة رضي اللہ عنہ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”مطل الغني ظلم“ (مشکاة: ص: ۲۵۲) وروِي أن معاذا کان یدّان فأتی غرماوٴہ إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فبَاعَ النبي صلی اللہ علیہ وسلم مالہ کلہ في دَینہ حتی قام معاذ بغیر شيء (مشکاة، ص: ۲۵۲، باب الإفلاس والإنظار، الفصل الثاني)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند