متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 55639
جواب نمبر: 55639
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 81-81/Sn=12/1435-U قدم بوسی کو علی الاطلاق حرام کہنا صحیح نہیں ہے، بعض روایات میں اس کا ثبوت ملتا ہے، ابوداوٴد میں ہے: ․․․ عن زارع وکان في وفد عبد القیس قال: لما قدمنا المدینة فجعلنا نتبادر من رواحلنا، فنقبل ید النبي صلی اللہ علیہ وسلم ورجلہ الحدیث (أبوداوٴد، رقم ۵۲۲۵، باب في قبلة الرجل)؛ لہٰذا اگر کوئی شخص واجب الاکرام ہو تو اس کی قدم بوسی کی فی نفسہ گنجائش ہے، بہ شرطے کہ سجدے کی ہیئت پیدا نہ ہو اور دیکھنے والوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ یہ سجدہ کررہا ہے؛ البتہ اس زمانے میں احتیاط اسی میں ہے کہ قدم بوسی سے احتراز کیا جائے؛ اس لیے کہ یہ دوسروں کے لیے فسادِ عقیدہ اور فتنہ کا باعث بن سکتا ہے؛ اسی لیے بہت سے فقہاء نے قدم بوسی سے منع کیا ہے، طلب من عالم أو زاہد أن یدفع إلیہ قدمہ ویمکنہ من قدمہ لیقبلہ مثل أجابہ وقیل لا یرخص فیہ اھ (الدر المختار: ۹/۵۵۰، زکریا) وللمزید من التفصیل راجع امداد الفتاوی (۵/۳۴۵،ط: کراچی) وجواہر الفقہ والفتاوی المحمودیہ (۱۹/ ۱۳۲، ط: ڈابھیل)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند