• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 55630

    عنوان: اوور ٹائم كی تنخواہ كیسی ہے؟

    سوال: میں جہاں ملازمت کررہا ہوں چار سال سے ، ترقی یا تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا ہے، خرچے بڑھ رہے ہیں ، بچے اب بڑے ہوگئے ہیں ، ان کی تعلیمی اخراجات بڑھ گئے ہیں ، گھر کا کرایہ بھی بڑھ گیا ہے، کمپنی کیجنرل منیجر سے بات کرچکا ہوں پر وہ تنخواہ بڑھانے کے بجائے کہتے ہیں کہ اوور ٹائم کام کرو جب کہ میری جو ذمہ داری ہے کمپنی میں اس کے لیے مجھے اوور ٹائم لگانا نہیں پڑتا، کمپنی کو بتایا بھی ہے کہ اوور ٹائم کے لیے کام نہیں ہے تو ان کا کہنا ہے کہ ایسے ہی آفس میں دو گھنٹے بیٹھ کر چلے جایا کرو ، ایسے کافی پیسے بن جائیں گے ، اب آپ مجھے بتائیں کہ جنر منیجر کی اجازت سے میں اس طرح اوورٹائم لگاؤں تو وہ کمائی میرے لیے حلال ہوگی یا حرام؟

    جواب نمبر: 55630

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 78-78/Sd=12/1435-U شرعا اجرت کی تعیین کا معیار باہمی معاہدہ ہے، باہمی رضامندی سے جو اجرت مقرر کردی جائے شرعاً وہ جائز ہے، صورت مسئولہ میں اگر کمپنی کے منیجر سے یہ معاہدہ ہوا کہ اووَر ٹائم میں صرف وقت لگانے پر تنخواہ میں اضافہ ہوجائے گا، چاہے اس میں کام نہ کرنا پڑے تو ایسی صورت میں اوور ٹائم میں وقت لگانے پر ملنے والی زائد تنخواہ حلال ہوگی بشرطیکہ کمپنی کے مالک کی طرف سے جنرل منیجر کو ملازم کے ساتھ اس طرح معاہدہ کرنے کا اختیار ہو، اگرچہ اس میں کوئی کام نہ کیا ہو۔ قال الحصکفي: والثاني وہو الأجیر الخاص-- وہو من یعمل لواحد عملاً موٴقتا بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدة وإن لم یعمل (الدر المختار مع رد المحتار: ۹/ ۸۱-۸۲، کتاب الإجارة، بحث: الأجیر الخاص، ط: دار إحیاء التراث)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند