متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 55602
جواب نمبر: 5560201-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1721-1448/B=11/1435-U ہومیوپیتھک کی تمام دواوٴں میں یا تو الکوحل یا افیون، یا کچلہ ملا ہوا ہوتا ہے یہ چیزیں دوا میں تیزی پیدا کرنے کے لیے ڈالی جاتی ہیں، الکوحل مختلف چیزوں سے بنتا ہے، کوئلہ، سبزی آلو وغیرہ سے بھی بنتا ہے یہ الکوحل اگر تھوڑی مقدار میں ملا ہوا ہو جس سے نشہ نہ آتا ہو تو اس دوا کے استعمال کی گنجائش ہے، اوراگر انگور، منقی، چھوہارے کھجور کی شراب سے الکوحل تیار کیا گیا ہے تو ایسے الکوحل کی آمیزش سے وہ دوا ناپاک وحرام ہوجاتی ہے، اسکا کھانا خواہ قلیل مقدار میں ہو یا زیادہ مقدار میں جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اپنا آفس غیر مسلم كو كرایہ پر دینا؟
2233 مناظربوڑھوں، بیواؤں كو سركار كی طرف سے ملنے والا وظیفہ ہماری والدہ لے سكتی ہیں یا نہیں؟
29161 مناظرجیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سروگیسی (کرایہ کی
کوکھ)ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا حاصل کرنے کے لیے ایک نئی ٹکنالوجی ہے ، جس کے اندر جنین
کو دوسری عورت کی بچہ دانی میں رکھا جاتا ہے یعنی شادی شدہ بیوی کے ذریعہ سے نہیں
بلکہ بیوی کے علاوہ کسی اور عورت کے ذریعہ سے جس کے اندر کسی طرح کے جسمانی تعلق
قائم کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔جنین ٹیسٹ ٹیوب میں بڑھتا ہے شوہر کی منی اور بیوی جس
کی بچہ دانی الجھن اور پیچیدگی کی وجہ سے نکال لی گئی ہے، اس کا بیضہ لے کرکے ۔اس
کے بعد اوپر مذکور جنین دوسری عورت کی بچہ دانی میں رکھا جاتا ہے اور وہ عورت اس
کو عام طریقہ پر جنم دیتی ہے۔میرا سوال ہے کہ کیا یہ طریقہ شریعت میں جائز ہے تو
کیا اس صورت میں یہ جنین ان عورتوں کی کوکھ میں بھی رکھاجاسکتاہے جن سے نکاح کرنا
حرام ہے؟ برائے کرم جلد جواب عنایت فرماویں۔
میری
کزن حجن ہے اور وہ اکثر و بیشتر عمرہ کرنے کے لیے جاتی ہے۔ وہ اور اس کے مرد ساتھی
عرب امارات میں نقدر رقم (بطور امانت کے) لوگوں سے لیتے ہیں اور ہر ماہ ان کو اس
رقم کا دس فیصد دیتے ہیں۔ وہ زر امانت یا جمع شدہ رقم جو کہ ان کو دی جاتی ہے جب
بھی ان کو واپس لینا چاہیں بغیر کسی کٹوتی کے واپس مل جاتی ہے۔جب ان سے اس رقم کی
سرمایہ کاری کے بارے میں بات چیت کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ اس رقم کوسامانوں کو
ایکسپورٹ اور امپورٹ کرنے میں استعمال کرتے ہیں اور جو دس فیصد کی رقم ہر ماہ دی
جاتی ہے وہ حلال رقم ہے۔ لیکن مجھ کو ان کی بات سے اطمینان نہیں ہے کیوں کہ یہ بات
کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص ہر ماہ ہماری جمع شدہ رقم پر دس فیصد دے اور جب ہم اس
رقم کو واپس لینا چاہیں تو وہ رقم بغیر کسی کٹوتی کے واپس بھی ہوجاتی ہو؟ میرا
سوال یہ ہے کہ اگر چہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ اس کو اچھی جگہوں میں استعمال کرتے ہیں
لیکن اگر کبھی غلط جگہ پر استعمال کی گئی تو ہم کو کبھی بھی نہیں معلوم ہوگا تو اس
صورت میں کیا حکم ہے؟کیا جو رقم یعنی دس فیصد ہر ماہ وصول کی جاتی ہے وہ حلال
ہے،یا سود شمار کی جائے گی؟ برائے کرم وضاحت فرماویں۔
گانے کے بغیر صرف میوزک کا حکم
4483 مناظر