• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 42979

    عنوان: کیا حرام مال سے ، یا ناجائز آمدنی سے کوئی جائز تجارت کر سکتے ہیں اور اس تجارت سے کی جانے والی آمدنی جائز ہے؟

    سوال: کیا حرام مال سے ، یا ناجائز آمدنی سے کوئی جائز تجارت کر سکتے ہیں اور اس تجارت سے کی جانے والی آمدنی جائز ہے؟

    جواب نمبر: 42979

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 155-60/L=2/1434 حرام اور ناجائز مال سے کسی بھی قسم کی تجارت کرنا درست نہیں، لیکن اگر کسی شخص نے اس طرح کے مال سے تجارت کرلی تو اس سے حاصل شدہ آمدنی اور نفع کو حرام نہیں کہا جائے گا، البتہ اگر حرام مال (غصب، رشوت) وغیرہ اسے حاصل ہے تو اصل مالک کی طرف اس اصل رقم کا لوٹانا ضروری ہوگا، اور اگر سودی رقم ہے یا مالک کا پتہ ہی نہیں توایسی صورت میں اصل رقم کو غرباء ومساکین وغیرہ پر صدقہ کردیا جائے۔ اکتسب حراما واشتری بہ أو بالدراہم المغصوبة شیئا. قال الکرخی: إن نقد قبل البیع تصدق بالربح وإلا لا وہذا قیاس، وفي الشامي: قولہ (اکتسب حراما ) توضیح المسألة ما فی التتارخانیة حیث قال: رجل اکتسب مالا من حرام ثم اشتری فہذا علی خمسة أوجہ: أما إن دفع تلک الدراہم إلی البائع أولا ثم اشتری منہ بہا أو اشتری قبل الدفع بہا ودفعہا، أو اشتری قبل الدفع بہا ودفع غیرہا، أو اشتری مطلقا ودفع تلک الدراہم، أو اشتری بدراہم أخر ودفع تلک الدراہم. قال أبو نصر: یطیب لہ ولا یجب علیہ أن یتصدق إلا فی الوجہ الأول، وإلیہ ذہب الفقیہ أبو اللیث، لکن ہذا خلاف ظاہر الروایة فإنہ نص فی الجامع الصغیر: إذا غصب ألفا فاشتری بہا جاریة وباعہا بألفین تصدق بالربح. وقال الکرخی: فی الوجہ الأول والثانی لا یطیب، وفی الثلاث الأخیرة یطیب، وقال أبو بکر: لا یطیب فی الکل، لکن الفتوی الآن علی قول الکرخی دفعا للحرج عن الناس اہ


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند