• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 42200

    عنوان: قمار اور جوے كی ایك قسم

    سوال: میرا چچا زاد بھائی جو اب بارہویں کلاس میں ہے، حال ہی میں ملازمت کے لئے ایک سیمینار میں گیا تھا وہا ان لوگو ں نے کہا کہ تم کو ملازمت کے لئے دس ہزار روپئے بھرنا پڑیگا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ تمیں کچھ کمپیوٹر کورس سکھائے گے اور پھر وہ تمہیں ایک سی ڈی بھی دیِں گے ، اس میں جو کام ہے اسکے متعلق ساری جانکاری ہے اسے تمکو خود سیکھنا ہوگا پھر ایک ہفتے میں دو نئے ممبر بنانے ہوں گے پھر تمہیں تنخواہ دے جائگی پھر ہر ہفتے ممبر بنانے ہوں گے اسپر تنخواہ بڑھائی جائیگی اور ہفتے کی ۳۲ ہزار روپیے تک مقرر ہوجائے گی، ا ور اس کام کو قانون نے اجازت دی ہے، اس کے لیے اس نے اپنے ابّا کے منع کرنے کے باوجود دوسرے سے قرضہ لیکر وہاں پر بھر دیا حلال اور حرام جانے بغیر اب کسی نے بتایا کہ یہ کام اسلامی روسے حرام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت میں یہ کام حرام ہوگیا اور اگر ہوگیا ہے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ دو ممبر نہیں بناتا ہے تو اسکے ۱۰ ہزار روپیے اسے دوبارہ نہیں ملیں گے اور اگر وہ ممبر بناتا ہیتو دو اور جن حرام کمائی کرنے لگیں گے جس کا گناہ بھی اس پر آئے گا، اسے اس حال می کیا کرنا چاہئے؟

    جواب نمبر: 42200

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1970-1529/B=12/1433 یہ شکل ایک قسم کا قمار اور جوا ہے جس کو قرآن پاک میں قطعی حرام فرمایا گیا ہے، مسلمانوں کو ایسے کاروبار سے دور رہنا چاہیے۔ اور جائز وحلال کاروبار میں لگنا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند