• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 40986

    عنوان: کمیشن دینا

    سوال: ایک شخص سرکاری کالج اور یونیورسٹی میں کتابیں سپلائی کرتا ھے جب کہ ان کالج اور یونیورسٹی کو کتابوں کے لئے فنڈ سرکار کی جانب سے ملتی ھے اور اس کام میں اس شخص کو کالج اور یونیورسٹی کے ذمہ داروں کو کمیشن کے طور پر /۱۰ یا /۱۵ فیصد تک دینا پڑتا ھے تب ھی اس کو ٹینڈر مل پاتا ہے بصورت دیگر وہ دوسروں کو دے دیتے ھیں، ان حالات میں مندرجہ ذیل امور دریافت طلب ھیں۔ ۰۱) کیا اس طرح کا کمیشن والا کام کرنا درست ھے) ۰۲) کیا اس طرح کمیشن دینا رشوت میں شمار ھوگا جبکہ اس کے علاوہ اس شخص کا اور کو ئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے؟ اگر اس طرح درست نھیں تو جب تک کو ئی دوسرا تجارت شروع نھیں کر سکتا تب تک اس کی اجازت ھے یا نھیں؟ مدلل جواب مرحمت فرمائیں۔ نوازش ھوگی۔

    جواب نمبر: 40986

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 954-946/N=11/1433 (۱) اور (۲) کالج اور یونیورسٹی کے ذمہ دار لوگ ٹینڈر دینے پر جو کمیشن لیتے ہیں یہ از روئے شرع صریح رشوت ہے قال في رد المحتار (کتاب القضاء: ۸/۳۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند): وفي المصباح: الرشوة بالکسر: ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ أو یحملہ علی ما یرید إھ اور رشوت لینا اور ضرورت شرعی کے بغیر دینا دونوں ہی ناجائز وحرام ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (سنن ابی داوٴد کتاب القضاء باب فی کراہیة الرشوة: ۲/ ۵۰۴) اس لیے سوا ل میں مذکور کمیشن کا معاملہ شرعاً درست نہیں۔ (۳) ناجائز کمیشن کے لین دین سے بچتے کتابوں کی تجارت باقی رکھ سکتے ہیں، کالج اور یونیورسٹی والے اگر کمیشن کے بغیر ٹینڈر نہیں دیتے تو آپ دوسروں کے ساتھ کتابیں فروخت کریں یا کوئی اور جائز ذریعہٴ معاش اختیار کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند