• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 37243

    عنوان: میں یہ جاننا چاہتا ہوں کے جو کام میں کرتا ہوں وہ اسلامی رو سے جائز اور سود سے پاک ہے

    سوال: مختلف شہروں سے گاڑیوں میں چاول آتا ہے، اس کا کرایہ ادا کرنا مالک کی ذمہ داری ہوتی ہے ، مگر جن گوداموں میں یہ گاڑیاں خالی ہوتی ہیں مالک وہاں کرایہ ادا نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے دفتروں میں کرایہ ادا کرتے ہیں اور گاڑی کے ڈرائیور کو وہیں کرایہ چاہئے ہوتا ہے ، کیوں کہ وہ وو اپنی اتنی بڑی گاڑی دفتر والے علاقے میں نہیں لے جا سکتے ، اور اپنی گاڑی کہیں چھوڑ کر بھی نہیں آ سکتے۔ لہذا میں اور مجھ جیسے اور بھی بروکر یعنی دلال ان گاڑی والوں کو وہیں کرایہ ادا کر کے پرچی خرید لیتے ہیں، اس کرائے میں سے اپنا کمیشن کاٹ لیتے ہیں اور مالک سے دفتر میں جا کر نقد کرایہ وصول کر لیتے ہیں۔ مگر کچھ مالک ہمیں اپنی مرضی کے مطابق ۱۵ یا ۲۰ دن بعد کرایہ ادا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کے ۱۵ دن تک ہم اپنے پیسے پھنسائے رکھیں۔ اس لئے اسی مارکیٹ میں کچھ اور بروکر ہوتے ہیں جو کرایہ کا ۱.۸ فیصد کاٹ کر ہمیں نقد کرایہ ادا کر دیتے ہیں اور مالک سے مقرّر کردہ وقت کے بعد چیک لے لیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام سود سے پاک ہے؟ دونوں صورتوں کے بارے میں بتا دیں نقد اور ادھار کا یہ کام سود سے پاک ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

    جواب نمبر: 37243

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 518=57-3/1433 پرچی خریدنے اور کمیشن لینے کی دونوں صورتیں سود میں داخل ہیں، اس لیے ناجائز ہے، ناجائز معاملہ کو فروغ دینا بھی غلط ہے، جب ایک ٹرک مال کا سودا ہوا ریٹ طے ہوا مال پہنچانے کی بات طے ہوئی، لین دین کا طریقہ طے ہوا تو بیچارے ٹرک والے کے بھاڑے ہی کے سلسلے میں التوا کا طریقہ کیوں اختیار کیا جاتا ہے، صاف صاف طے کرلیا جائے کہ جہاں مال اتارا جائے گا وہیں بھاڑا لیں گے، یہ تو بیچارے ٹرک والے کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہوا اور ناجائز فائدہ بھی سود کی شکل پر مشتمل ہے، لہٰذا دہری خرابی ہوگئی، حدیث میں ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کردینا چاہیے، یہی صحیح طریقہ ہے جس کی ہمیں حدیث شریف میں تعلیم دی گئی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند