• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 36228

    عنوان: آرٹیکل لکھنا

    سوال: انٹرنیٹ پرہرویب سائٹ کو گاہک بنانیکیلییتعا رف کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ ویب سائٹس لوگوں کو معا وضہ کے عوض اپنیلئیآرٹیکل لکھنیکی پیشکش کرتی ہیں۔ آرٹیکل مضمون کی ایک قسم ہے۔ ان آرٹکلز میں ان کیتعا رف سیلیکران کی ویب سائٹ کی ہرایک خصوصیت تک معلوما ت فراہم کی جاتی ہیں۔ ا گر کوئی شخص ان ویب سائٹس کے لیے معاوضہ کے بد لیآ رٹیکلزلکھناچاہیتووہ شخص انٹرنیٹ سیسرچ کرکیمعلومات ا کٹھی کر کیآرٹکل کی صورت میں لکھتا ہے۔ تا ہم انٹرنیٹ سیحا صل کی جانے والی معلوما ت کاعلم نہیں ہوتا کہ آیا یہ صحیح ہیں یا غلط۔ سوالات : ۱- مذ کورہ طریقہ سے ڈالر کما نا حلال ہے یا حرام؟(جیسا کہ ڈالرغیرمسلموں کی کرنسی ہے اورغیرمسلم، ڈالر سود ی نظا م پرکما تے ہیں۔) ۲- ا گر معلوم نہ ہو کہ ا کٹھی کی جا نے والی معلوما ت درست ہیں یا نہیں ، تب آ رٹکل لکھنا حلال ہے یا حرام؟ ۳- ا گر اپنی سوچ سے ممکنہ غلط معلومات کونکال کرلکھاجا ئے توحلال ہوگا؟ ۴- حرام اشیا ء کی تعریف میں اس لئے لکھنا کہ اسکی فروخت ہو جائے، حلال ہے؟ تمام ضمنی ممکنہ حلال صورتیں تحریرفرماویں۔ فی الفورفتوی حا صل کرنیکی صورت بیان فرما دیں۔اشد ضرورت ہے۔

    جواب نمبر: 36228

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 171=28-2/1433 اگر اس آرٹیکل میں ویب سائٹ کے تعارف اور خصوصیات بیان کرنے میں حقیقت بیانی سے کام لیا جائے اور اس کا ایسا ہی تعارف لکھا جائے جیسی وہ حقیقت میں ہے اور بے جا مبالعہ آرائی سے احتراز کیا جائے نیز معتبر اور قابل اعتماد ویب سائٹس میں سے معلومات اکٹھی کرکے مضمون لکھا جائے تو اس کے ذریعے ڈالر کمانا جائز ہے، عن عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ مرفوعا: إیاکم والکذب وإن الکذب یہدي إلی الفجور وإن الفجور تہدي إلی النار، متفق علیہ․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند