• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 32824

    عنوان: حکومت پروویڈنٹ فنڈ کے نام سے جو رقم ملازمین کی تنخواہوں سے کاٹتی ہے اور ریٹائر ہونے پر اضافہ کرکے دیتی ہے اس رقم کی حیثیت انعام اور عطیہ کی ہے، اس پر سود کی تعریف صادق نہیں آتی اس لیے اس رقم کا استعمال جائز ہے۔

    سوال: سرکاری ملازم کا کچھ پیسہ پی ایف کے نام سے کاٹا جاتاہے، اور وہ ملازم ضرورت پڑنے پر اس پیسہ کو ادھار کے طور پر کچھ رقم نکال سکتاہے جسے بنا کسی سود کے قسطوں پر واپس لوٹانا پڑتاہے۔ یا اگر ملازم پرانا ہو یعنی تقریبا دس سال یا زائد تو جمع شدہ رقم کا 75/ فیصد اس کو مل سکتاہے جو واپس نہیں لوٹانا نہیں ہوگا، یہ جمع شدہ رقم اس کو کچھ اضافی رقم کے ساتھ ریٹائرمنٹ کے وقت ملے گی۔ اس سلسلے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بتائیں کہ اس رقم پر جو اضافہ کی ہوئی رقم ہے وہ سود ہے یا نہیں؟کیا وہ رقم جو ہمارے فنڈ میں جمع ہورہی ہے اس پر زکاة ہے یا نہیں؟اگر ہے تو یہ رقم واپس ملنے پرزکاةدینی ہوگی یا ہر سال ہمیں معلوم کرتے رہنا چاہئے کہ کتنا پیسہ جمع ہوگیاہے اور اس پر زکاة نکالنی ہوگی ؟۔ براہ کرم، تفصیلی جواب دیں۔

    جواب نمبر: 32824

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 1047=641-7/1432 حکومت پروویڈنٹ فنڈ کے نام سے جو رقم ملازمین کی تنخواہوں سے کاٹتی ہے اور ریٹائر ہونے پر اضافہ کرکے دیتی ہے اس رقم کی حیثیت انعام اور عطیہ کی ہے، اس پر سود کی تعریف صادق نہیں آتی اس لیے اس رقم کا استعمال جائز ہے۔ جہاں تک اس رقم پر زکاة کا مسئلہ ہے تو جب تک وہ رقم ملازم کو نہ مل جائے اس وقت تک اس پر زکاة واجب نہیں، رقم ملنے کے بعد اس پر بشرائط وجوب زکاة زکاة واجب ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند