• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 28318

    عنوان: محترم مکرمی مفتی صاحب میری والدہ اور بھائی نے ایک خطیر رقم سودی بینکنگ کی ایک اسکیم میں بہت عرصے سے رکھی ھوئی ھے میرے بار بارالله سے دعاکرنے پر اور سخت وعید سنانے پرانھوں نے اسلامی بینک میں رکھنے کا فیصلہ کر لیا ھے۔ اتنے عرصے میں کتنا سود بنا اس کا اندازہ کافی مشکل ھے مگر ناممکن نیہں اس تناظر میں چند انتہائی اھم سوالوں کے جواب چاہتا ھوں جو مندرجہ زیل ھیں؛ ۱۔ کیا سود کھانے سے توبہ کے بعد جتنا سود کھایا ھوگا اس کا گناھ معاف ھو جائے گا یا کچھ کفارہ ادا کرنا ھوگا؟ ۔اگر وصول شدہ سود کی رقم کا اندازہ کرنا ناممکن ھو تو اس صورت میں شرعی حکم کیا ھےِ؟ ۔ میرے گھروالوں کی روزِ محشر میں نجات کے لیئے میں اور کیا کر سکتا ھوں کیا میرے زمے جتنا امر بالمعروف کا حق تھا وہ ان کے سودی کام سے توبہ کے بعد پورا ھو گیا۔ میں الله کے فضل سے اچھی تنخواہ لیتا ھوں مگر جب نوکری اور ھدایت دونوں نیہں تھے تو میں بھی انہی پیسوں پر پلا ھوں مگر اپنی نوکری اور الله کی ھدایت کے بعد ایک خطیر رقم ماھانہ اپنی والدہ کو گھر کے خرچ کے لیئے دیتا ھوں کیا میرے لیئے کیا سزا ھونی چاھیئے۔ ۔ اس سودی فتنے سے بچ کر گھر چلانے کے لیئے آپ جناب کی اچھی اچھی تجاویز درکار ھیں۔ 

    سوال: محترم مکرمی مفتی صاحب میری والدہ اور بھائی نے ایک خطیر رقم سودی بینکنگ کی ایک اسکیم میں بہت عرصے سے رکھی ھوئی ھے میرے بار بارالله سے دعاکرنے پر اور سخت وعید سنانے پرانھوں نے اسلامی بینک میں رکھنے کا فیصلہ کر لیا ھے۔ اتنے عرصے میں کتنا سود بنا اس کا اندازہ کافی مشکل ھے مگر ناممکن نیہں اس تناظر میں چند انتہائی اھم سوالوں کے جواب چاہتا ھوں جو مندرجہ زیل ھیں؛ ۱۔ کیا سود کھانے سے توبہ کے بعد جتنا سود کھایا ھوگا اس کا گناھ معاف ھو جائے گا یا کچھ کفارہ ادا کرنا ھوگا؟ ۔اگر وصول شدہ سود کی رقم کا اندازہ کرنا ناممکن ھو تو اس صورت میں شرعی حکم کیا ھےِ؟ ۔ میرے گھروالوں کی روزِ محشر میں نجات کے لیئے میں اور کیا کر سکتا ھوں کیا میرے زمے جتنا امر بالمعروف کا حق تھا وہ ان کے سودی کام سے توبہ کے بعد پورا ھو گیا۔ میں الله کے فضل سے اچھی تنخواہ لیتا ھوں مگر جب نوکری اور ھدایت دونوں نیہں تھے تو میں بھی انہی پیسوں پر پلا ھوں مگر اپنی نوکری اور الله کی ھدایت کے بعد ایک خطیر رقم ماھانہ اپنی والدہ کو گھر کے خرچ کے لیئے دیتا ھوں کیا میرے لیئے کیا سزا ھونی چاھیئے۔ ۔ اس سودی فتنے سے بچ کر گھر چلانے کے لیئے آپ جناب کی اچھی اچھی تجاویز درکار ھیں۔ 

    جواب نمبر: 28318

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 73=47-1/1432

    (۱) توبہ کرلینے سے معافی تو ہوجائے گی ان شاء اللہ مگر جس قدر رقم سود کی کھائی ہے اس کے بقدر صدقہ بلانیت ثواب کرنے کے بعد توبہ اور معافی کی تکمیل ہوگی، لہٰذا تخمینہ سے اندازہ لگالیں اور تھوڑا تھوڑا صدقہ کرتے رہیں۔
    (۲) اندازہ کرلینا اور ظن غالب پر عمل کرنا کافی ہے۔
    (۳) جی ہاں آپ کا عمل ان شاء اللہ پورا ہوگیا۔
    (۴) سود کی رقم کا گناہ بہت سخت ہے حدیث میں ہے کہ سود کا ایک درہم جو جان بوجھ کر کھایا گیا ہو، چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ لیکن بندہ جب صدق دل سے اللہ تعالیٰ کے سامنے روتا ہے اپنے گناہوں پر نادم ہوکر آئندہ کے لیے اسے چھوڑدیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے خوب خوب معافی مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہیں، اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں، پھر توبہ کے بعد وہ ایسا ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں، بالکل صاف ستھرا، یہ سچی پکی توبہ کی برکت ہے۔
    (۵) حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں،مجبوری کی حالت میں سود کی رقم کھانے میں آجائے تو بلانیت ثواب اسے صدقہ کردیں او راللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے رہیں۔ استغفار کی کثرت رکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند