• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 27653

    عنوان: میرے سر پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ میری دو لڑکیاں ہیں۔ میرے شوہر دوسرے بچے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن بہت کوششوں سے اور دعاؤں سے اور بہت ساری پریشانیوں سے میرے یہاں دوسری پیدائش ہوئی، وہ لڑکی تھی لیکن واقعی بہت پیاری۔ میں ایک لڑکا چاہتی ہوں۔ میری دوسری بچی کی پیدائش کو سات سال ہوچکا ہے، لیکن میرے شوہر مزید اولاد سے انکار کرتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے زیر اثر ہیں اور ہمیشہ معاشیات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اگر چہ وہ میرے تمام پیسے لے لیتے ہیں، میں ان سے زیادہ کماتی ہوں۔ ان کی ماں کے صرف دو بچے ہیں اور بعد میں وہ بانجھ ہوگئیں۔ لڑکیوں کی وجہ سے مجھ کو بہت زیادہ ذہتی تکلیف اٹھانی پڑتی ہیں۔ میں تقریباً تین سال پہلے حاملہ تھی، لیکن میرے شوہر نے میرے اوپر حمل ضائع کروانے کے لیے دباؤ ڈالا اور میں اتنی زیادہ خوف زدہ تھی کہ میں بادل ناخواستہ تیارہوگئی۔ یہ تقریباً دو یا تین ہفتہ کا حمل تھا۔ میں خوف زدہ ہوں کیا اللہ مجھ کو معاف کرے گا؟میں نے ایک لڑکے کے لیے مکہ میں بھی دعا کی۔ اور بعد میں یہ ضائع کروادیا گیا اور میں واقعی فکر مند ہوں اس کے انجام سے اللہ کے پاس۔ میں اب بھی حاملہ ہونے سے خوف زدہ ہوں کیوں کہ دوبارہ پھر لڑکی ہوسکتی ہے اور میں اب حمل ضائع کرواکر زیادہ گناہ نہیں کرنا چاہتی ہوں۔ برائے کرم اس ٹینشن سے نجات پانے کے لیے میری مدد فرماویں۔

    سوال: میرے سر پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ میری دو لڑکیاں ہیں۔ میرے شوہر دوسرے بچے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن بہت کوششوں سے اور دعاؤں سے اور بہت ساری پریشانیوں سے میرے یہاں دوسری پیدائش ہوئی، وہ لڑکی تھی لیکن واقعی بہت پیاری۔ میں ایک لڑکا چاہتی ہوں۔ میری دوسری بچی کی پیدائش کو سات سال ہوچکا ہے، لیکن میرے شوہر مزید اولاد سے انکار کرتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے زیر اثر ہیں اور ہمیشہ معاشیات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اگر چہ وہ میرے تمام پیسے لے لیتے ہیں، میں ان سے زیادہ کماتی ہوں۔ ان کی ماں کے صرف دو بچے ہیں اور بعد میں وہ بانجھ ہوگئیں۔ لڑکیوں کی وجہ سے مجھ کو بہت زیادہ ذہتی تکلیف اٹھانی پڑتی ہیں۔ میں تقریباً تین سال پہلے حاملہ تھی، لیکن میرے شوہر نے میرے اوپر حمل ضائع کروانے کے لیے دباؤ ڈالا اور میں اتنی زیادہ خوف زدہ تھی کہ میں بادل ناخواستہ تیارہوگئی۔ یہ تقریباً دو یا تین ہفتہ کا حمل تھا۔ میں خوف زدہ ہوں کیا اللہ مجھ کو معاف کرے گا؟میں نے ایک لڑکے کے لیے مکہ میں بھی دعا کی۔ اور بعد میں یہ ضائع کروادیا گیا اور میں واقعی فکر مند ہوں اس کے انجام سے اللہ کے پاس۔ میں اب بھی حاملہ ہونے سے خوف زدہ ہوں کیوں کہ دوبارہ پھر لڑکی ہوسکتی ہے اور میں اب حمل ضائع کرواکر زیادہ گناہ نہیں کرنا چاہتی ہوں۔ برائے کرم اس ٹینشن سے نجات پانے کے لیے میری مدد فرماویں۔

    جواب نمبر: 27653

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 1837=522-12/1431

    آپ کے شوہر کی سوچ اسلامی معلوم نہیں ہوتی کثرت اولاد منشا شریعت ہے اس خوف سے اولاد نہ ہونے کا حیلہ کرنا کہ ہونے والے بچہ کی کفالت کون کرے گا ناجائز وحرام ہے، قرآن شریف میں واضح لفظوں میں رزق کے خوف سے اولاد کو قتل کرنے کی ممانعت آئی ہے، قال تعالیٰ: ﴿وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِیَّاکُمْ﴾ (الإسرا: ۳۱) نیز لڑکی ہونے کے ڈر سے بھی ایسی تدبیر اختیار کرنا کہ جس سے استقرار حمل نہ ہو جہالت ہے، یہ طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کفار مکہ کا تھا کہ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ کو ختم کیا، بلکہ قرآن میں تو ایسے شخص پر سخت وعید آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کی اچھی تربیت کرنے پر جنت کی بشارت فرمائی ہے۔ اس لیے لڑکی ہونے پر کبیدہ خاطر اور غم زدہ ہونا یا لڑکی ہونے کے خوف سے استقرار حمل نہ ہونے دینا صحیح نہیں، یہ زمانہٴ جاہلیت کی سوچ ہے، یہ اسلامی سوچ نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند