عنوان:آجکل ایک عام رواج بن گیاہے کہ لوگ اپنے گھروں میں قرآن کریم کی آیات یا سورتوں کے کتبے گھروں کی دیواروں پر لگارہے ہیں، یہ عمل کس قدر صحیح ہے؟کیوں کہ قرآن کریم کی آیات یا سورتوں کے کتبے لگانا ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم کو آ پ نے کھول کر رکھ دیا ہے ، اس کو پڑھنے والا کوئی نہیں ہے، اس کے صفحات اڑرہے ہیں اور اس کی بے ادبی ہورہی ہے، ا س لیے کہ گھروں میں گانے بجانے بھی ہورہے ہیں اور دوسری طرف قرآن کریم کے کتبے لگے ہوتے ہیں، اگر دیوارپر لگانا ہی ہے تو اسے پڑھیں۔
سوال: آجکل ایک عام رواج بن گیاہے کہ لوگ اپنے گھروں میں قرآن کریم کی آیات یا سورتوں کے کتبے گھروں کی دیواروں پر لگارہے ہیں، یہ عمل کس قدر صحیح ہے؟کیوں کہ قرآن کریم کی آیات یا سورتوں کے کتبے لگانا ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم کو آ پ نے کھول کر رکھ دیا ہے ، اس کو پڑھنے والا کوئی نہیں ہے، اس کے صفحات اڑرہے ہیں اور اس کی بے ادبی ہورہی ہے، ا س لیے کہ گھروں میں گانے بجانے بھی ہورہے ہیں اور دوسری طرف قرآن کریم کے کتبے لگے ہوتے ہیں، اگر دیوارپر لگانا ہی ہے تو اسے پڑھیں۔
جواب نمبر: 2727001-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 2658=1042-11/1431
لگانے والے تو عامةً نیک نیتی ہی سے لگاتے ہیں اور بعض لوگ اُن کو پڑھتے بھی رہتے ہیں، تاہم احتیاط اس کے باوجود ترک میں ہی ہے، اگرچہ لگانے والوں کی نیت بے ادبی کی نہیں ہوتی اور عرفاً بھی بے ادبی نہیں سمجھی جاتی، برخلاف قرآن کریم اس طرح کھلا چھوڑدینے میں کہ اس کے صفحات اڑتے رہیں عام لوگ بھی اس کو بے ادبی ہی سمجھتے ہیں، گانا بجانا مستقلاً ناجائز وحرام ہے، جس کا ترک بہرحال مسلمانوں پر واجب ہے۔