• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 21832

    عنوان:

    بتوں کا خریدنا اور بیچنا کیسا ھے، میرے ایک دوست اکثر پرانےچھوٹے بت خریدتے ھیں اور بیچھتے ھیں، بعض اوقات کافروں کو بھی آثار قدیمہ کے طور پربیچھتے ھیں،کمائی کیسی ھے اس کام کی،(2)آج کل ھر کسی کے گھر میں نا جائز تصویریںھیں،اکثر ڈبوں کے ساٹھ آتے ھیں جب وہ کوئی چیز خریدتے ھیں، ان کے گھر جانا کیسا ھے۔(3) اگر کوئی لوگوں کی تصویریں ضایع کر دے،یا پھاڑ کر دے تو کیا اس کو تاوان دینا پڑیگا مثلاً کاغذ ،رنگ وغیرہ کے(4)راستوں کی تصویروں(عورتوں کے تصوہروں کے علاوہ) کے دیکھنے کا کیا حکم ھے،ابتلائے عام ھے آج کل(5)تصویر کے شرعی احکام مفتی محمد شفیع صاحب صفحہ 86 میں لکھا ھے کہ"لیکن اگر ناقص تصویر میں چھرہ موجود ھو خواہ باقی بدن نہ ھو تو ایسی تصویر کا استعمال اکثرفقھ کے نزدیک جائز نھیں،مگر بعض حضرات حنفیہ اور اکثر مالکیہ اس کت استعمال کو جائز فرماتے گیں" یھاں سر کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ کیا ھو کہ تصویر ناقص رھے گی اور ان کے ھاں آستّعمال جائز ھوگا...؟؟؟

    سوال:

    بتوں کا خریدنا اور بیچنا کیسا ھے، میرے ایک دوست اکثر پرانےچھوٹے بت خریدتے ھیں اور بیچھتے ھیں، بعض اوقات کافروں کو بھی آثار قدیمہ کے طور پربیچھتے ھیں،کمائی کیسی ھے اس کام کی،(2)آج کل ھر کسی کے گھر میں نا جائز تصویریںھیں،اکثر ڈبوں کے ساٹھ آتے ھیں جب وہ کوئی چیز خریدتے ھیں، ان کے گھر جانا کیسا ھے۔(3) اگر کوئی لوگوں کی تصویریں ضایع کر دے،یا پھاڑ کر دے تو کیا اس کو تاوان دینا پڑیگا مثلاً کاغذ ،رنگ وغیرہ کے(4)راستوں کی تصویروں(عورتوں کے تصوہروں کے علاوہ) کے دیکھنے کا کیا حکم ھے،ابتلائے عام ھے آج کل(5)تصویر کے شرعی احکام مفتی محمد شفیع صاحب صفحہ 86 میں لکھا ھے کہ"لیکن اگر ناقص تصویر میں چھرہ موجود ھو خواہ باقی بدن نہ ھو تو ایسی تصویر کا استعمال اکثرفقھ کے نزدیک جائز نھیں،مگر بعض حضرات حنفیہ اور اکثر مالکیہ اس کت استعمال کو جائز فرماتے گیں" یھاں سر کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ کیا ھو کہ تصویر ناقص رھے گی اور ان کے ھاں آستّعمال جائز ھوگا(6)اسی کتاب کے اسی صفحہ پر لکھا ھے"نصف اعلٰی کی تصویر جو عام طور پر مروج ھے اس کا استعمال حنفیہ کے نزدیکھ با لاتفاق ناجائز ھے" سر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کیا ھو کے تصویر نصف اعلٰی نہ کھی جائے گی اور استعمال جائز ھوگا(7)گھر کے لئے بھت سالوں سے پھلے میں نے ٹی وی اور ،فلم ریکارڈر خریدھا تھا، اس میں میرا کتناگناہ ھے،آگر میں ان کو ضائع کر دوں تو تاوان دینا پڑیگا یا نھیں۔بات یہ ھے کہ والد صاحب وفات پا چکے ھیں اور یو ترکہ میں ھے اور ترکہ تقسیم نھی ھوا اور عنقریب نہ ھونے کا امکان ھے۔مجھ کو مشورہ دیں کہ میں کیا کرون، ٹی وی بند کرنے پر لوگ ماں وغیرہ جھگڑا کرتے ھیں.

    جواب نمبر: 21832

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 674=538-5/1431

     

    (۱) بتوں کو بیچنا اور خریدنا ناجائز ہے اور اس کی آمدنی حرام ہے۔

    (۲) ڈبوں وغیرہ پر چھپی تصویریں اگر قابل احترام جگہ نہ رکھی جائیں اور نہ ہی ان کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو بلکہ حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہو تو ایسی تصویر والے شخص کے گھر جانے میں کوئی حرج نہیں۔

    (۳) اگر ناجائز تصویر مثلاً ستر وغیرہ نظر نہ آتا ہو اور پھر ان پر نگاہ پڑجائے تو کوئی حرج نہیں۔

    (۴) اگر تصویر مٹی کی بنی ہو تو شرعاً اس کی کچھ قیمت کسی کے ذمہ واجب نہیں ہوتی، البتہ اگر کسی دھات، لکڑی یا قیمتی کاغذ وغیرہ پر ہو تو اتنی قیمت واجب ہوتی ہے جس قدر اس لکڑی، دھات یا قیمتی کاغذ کی تصویر سے قطع نظر کرکے ہوسکتی ہے کما في الدر المختار وضمن بکسر مغرف بکسر المیم آلة اللہو ولو لکافر قیمتہ خشبًا منحوتًا صالحاً لغیر اللہو (درمختار مع الشامي کتاب الغصب: ۹/۳۰۶، ۹/۳۰۷ زکریا)

    (۵) ناقص تصویر سے مراد صرف سر، آنکھیں، ناک اور تھوڑی ہے، لہٰذا اگر اس سے زیادہ گردن، سینہ اور نصف ہاتھ وغیرہ بھی شامل ہوں تو وہ ناقص تصویر نہیں بلکہ نصف اعلی کی تصویر ہوگی جو آج کل بالعموم رائج ہے اسکا استعمال عند الاحناف بالاتفاق جائز نہیں اور جس ناقص تصویر کی بعض حنفیہ نے جو اجازت دی ہے تو بعض احناف کے اس کے اجازت دینے کے سبب مذہب حنفیہ میں اس کے عام استعمال کی اجازت نہیں ہوگی، اس لیے کہ اکثر احناف جب اس کے مخالف ہیں تو مسئلہ کا حکم ان ہی کے قول پر دائر ہوگا اس لیے کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو حکم جمہور کے قول کے مطابق ہی ہوتا ہے، اور اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے، البتہ بعض لوگ کے اختلاف کے سبب حکم میں خفت ضرور آجاتی ہے، لہٰذا جو ناقص تصویر ہیں ان کو بھی بلا کسی ضرورت کے استعمال نہ کیا جائے۔

    (۷) آپ بزرگان دین اور اہل باطن علماء کے ذریعہ گھروالوں کو ٹی وی کے نقصانات اور مفاسد سے آگاہ کرائیں اگر نرمی وسہولیت سے وہ لوگ باز آجائیں تو ٹھیک ہے ورنہ اگر آپ نے اپنے روپیہ سے ٹی وی خریدا تھا تو والد کی کمائی اس میں شامل نہیں تھی تو اس کو ضائع کرنے کے بجائے کسی غیرمسلم کے ہاتھ میں فروخت کرکے (خواہ کم ہی پیسہ میں بکے) اس کی قیمت کو کسی غریب پر صدقہ کردیں اور اگر وہ ٹی وی آپ نے والد صاحب کے پیسہ سے خریدا تھا تو دیگر ورثہ کے اس کی قیمت میں حصہ کے بقدر آپ پر ضمان واجب ہوگا کما في الدر المختار وضمن بکسر مغرف بکسر المیم آلة اللہو ولو لکافر قیمتہ خشبًا منحوتًا صالحًا لغیر اللہو (درمختار مع الشامي کتاب القصب: ۹/۳۰۶، ۹/۳۰۷ زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند