• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 20642

    عنوان:

    اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ۔ چند دن سے ایک روز نامہ میں ?پادریوں کی کرتوت? عنوان سے ایک مضمون شائع ہورہا ہے۔ کیا اسلام میں کسی اور مذہب کے پیشواوٴں وغیرہ کو برا بھلا کہنا درست ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کبھی کسی کو برا نہیں کہا۔ اس طرح کے مضامین شائع کرنے اور ان کو پڑھنے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ آگاہ فرمائیں تو عین نوازش ہوگی۔

    سوال:

    اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ۔ چند دن سے ایک روز نامہ میں ?پادریوں کی کرتوت? عنوان سے ایک مضمون شائع ہورہا ہے۔ کیا اسلام میں کسی اور مذہب کے پیشواوٴں وغیرہ کو برا بھلا کہنا درست ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کبھی کسی کو برا نہیں کہا۔ اس طرح کے مضامین شائع کرنے اور ان کو پڑھنے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ آگاہ فرمائیں تو عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 20642

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 561=361-4/1431

     

    کسی کے شر سے حفاظت کے لیے اگر اس کی برائی ظاہر کی جائے تو یہ غیبت میں داخل نہیں، نیز اگر غیبت اس مقصد سے کی جائے تاکہ وہ بات حکومت تک پہنچے اور حکومت اس کی سرزنش کرے تو اس پر بھی غیبت کرنے کا گناہ نہیں ہوگا۔ قال في الدر المختار: وإذا کان الرجل یصوم ویصلي ویضر الناس بیدہ ولسانہ فذکرہ بما فیہ لیس بغیبة حتی لو أخبر السلطان بذلک لیزجرہ لا إثم علیہ (الدر المختار) قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ قولہ فذکرہ بما فیہ لیس بغیبة أي یعذرہ الناس ولا یغتر بصومہ وصلاتہ فقد أخرج الطبراني والبیہقي والترمذي ?أتورّعون في الغیبة عن ذکر الفاجر اذکروہ بما فیہ یحذرہ الناس (الدر المختار مع الشامي: ۹/۵۸۵، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند