متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 177530
جواب نمبر: 177530
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:751-128T/L=8/1441
خود کشی کرنا سخت حرام ہے ، احادیث میں خود کشی پر سخت وعید آئی ہے ، اگر خدا نخواستہ کفار نے کسی مسلم عورت کو قید کر لیا اور اس سے زیادتی کی گئی تو وہ اس صورت میں معذور ہوگی ، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مواخذہ نہیں کریں گے ؛ تاہم کفار کے ہاتھ سے خلاصی حاصل کرنے کی خاطر خود کشی کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔
عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”من تردی من جبل فقتل نفسہ، فہو فی نار جہنم یتردی فیہ خالدا مخلدا فیہا أبدا، ومن تحسی سما فقتل نفسہ، فسمہ فی یدہ یتحساہ فی نار جہنم خالدا مخلدا فیہا أبدا، ومن قتل نفسہ بحدیدة، فحدیدتہ فی یدہ یجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم خالدا مخلدا فیہا أبدا“ رواہ البخاری (5778) ومسلم (109) عن ثابت بن الضحاک، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من قتل نفسہ بشيء عذب بہ یوم القیامة․ رواہ مسلم (110) عن جندب بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کان فیمن کان قبلکم رجل بہ جرح، فجزع، فأخذ سکینا فحز بہا یدہ، فما رقأ الدم حتی مات، قال اللہ تعالی: بادرَنی عبدی بنفسہ، حرمت علیہ الجنة․ رواہ البخاری (3463) وفی الموسوعة الفقہیة : الاتنتحار حرام بالاتفاق، ویعتبر من أکبر الکبائر بعد الشرک باللہ․ قال اللہ تعالیی: ((وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ )) وقال: ((وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا)) وقد قرر الفقہاء أن المنتحر أعظم وزرًا من قاتل غیرہ، وہو فاسق وباغ علی نفسہ، حتی قال بعضہم: لا یغسل ولا یصلی علیہ کالبغاة، وقیل: لا تقبل توبتہ تغلیظًا علیہ․ (الموسوعة الفقہیة 6/284) سمعتْ من زوجہا أنہ طلّقہا ولا تقدر علی منعہ من نفسہا إلا بقتلہ، لہا قتلہ بدواء خوف القصاص إلخ وفی الشامی: قال فی المحیط وینبغی لہا أن تفتدی بمالہا أو تہرب منہ وإن لم تقدر، قتلتْ متی علمت أنہ یقربہا ولکن ینبغی أن تقتلہ بالدواء ولیس لہا أن تقتل نفْسہا․ (شامی زکریا: ۵۵/۵)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند