• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 177305

    عنوان: سبسڈی لون کا شرعی حکم کیا ہے؟

    سوال: سبسڈی لون کا شرعی حکم کیا ہے؟

    جواب نمبر: 177305

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:607-97T/N=8/1441

    گورنمنٹ نے جن قسم کے لون میں سبسڈی رکھی ہے، وہ لون مسلمانوں کے لیے درج ذیل ۲/ شرطوں کے ساتھ لینا جائز ہے:

    (۱): لون لینے والے کو اپنی مالی پوزیشن کے مد نظر اس بات کا یقین یا غالب گمان ہو کہ وہ سارا قرضہ اتنی مدت میں ادا کردے گا کہ قرضے کا سود ، معاف کردہ رقم سے آگے نہیں بڑھنے پائے گا ، مثلاً کسی نے ۱۰/ لاکھ کا لون لیا اور گورنمنٹ نے اُس کا ۳۰/ فیصد حصہ، سبسڈی کے طور پر بینک کو ادا کردیا اور اب لون لینے والے کے ذمہ صرف ۷/ لاکھ روپے رہ گیا، جس پر بینک حسب ضابطہ سود چڑھائے گا، پس ۷/ لاکھ پر لگنے والا سود، ۳/ لاکھ سے اوپر نہ جائے اور آدمی بہر صورت سارا قرضہ ادا کردے۔اور اگر کسی شخص کو اپنی مالی پوزیشن کے مد نظر اس کا یقین یا غالب گمان نہ ہو تو اُس کے لیے سبسڈی والا لون بھی جائز نہ ہوگا۔

    (۲): سبسڈی لون ، کسی سرکاری (مرکزی یا صوبائی)بینک سے لیا جائے ، جیسے: ایس، بی، آئی اور پی، این، بی وغیرہ ۔اور اگر کوئی شخص کسی پرائیویٹ بینک سے سبسڈی والا لون لے گا تو وہ گورنمنٹ کی سبسڈی کے باوجود سودی قرضہ ہی ہوگا اور ناجائز وحرام ہوگا۔

    ذکر کردہ اوپر کی ۲/ شرطوں کے ساتھ سبسڈی لون کے جواز کی وجہ یہ ہے کہ جب بینک سرکاری ہوگا تو چوں کہ سبسڈی کا محکمہ بھی سرکاری ہوتاہے ؛ اس لیے سبسڈی کا محکمہ بینک کو جو سبسڈی ادا کرے گا، وہ لون لینے والے کے حق میں معافی کے درجے میں ہوگا اور یہ ایسا ہی ہوگا، جیسے: خود بینک قرضے کا کچھ فیصد معاف کردے۔ اور جب یہ معافی حکماً بینک کی طرف سے ہے تو ادا کیا جانے والا سود یہ مان کر سود سے خارج قرار دیا جاسکتا ہے کہ لون لینے والے نے سود کے بہ قدر معافی قبول نہیں کی؛ اس لیے سبسڈی لون کی یہ شکل جائز ہے۔ اور اگر بینک پرائیویٹ ہو تو چوں کہ اس صورت میں سبسڈی کا محکمہ اور بینک دونوں الگ الگ ہوئے؛ اس لیے گورنمنٹ کی سبسڈی ، لون لینے والے کے حق میں محض تعاون ہوگی، گویا گورنمنٹ نے لون لینے والے کو قرضہ کی ادائیگی کے لیے سبسڈی کی رقم دیدی ؛ لیکن بعض مصالح کی بنا پر خود اُسے نہ دے کر اُس کی جانب سے بینک کو دی ہے؛ تاکہ لون لینے والا کسی دوسری ضرورت میں استعمال نہ کرسکے، پس اس صورت میں بینک کی جانب سے قرضہ کا کوئی فیصد معاف نہیں کیا گیا؛ اس لیے یہ بلاشبہ سودی قرض او ر حرام وناجائز ہوگا۔اسی طرح اگر کسی شخص کو اپنی مالی پوزیشن کے مد نظر اس بات کا یقین یا غالب گمان نہیں ہیکہ ما بقیہ قرضے کا سود ، معاف کردہ رقم کے اندر اندر رہے گا تو اس کے لیے بھی سبسڈی لون جائز نہ ہوگا؛ کیوں کہ جب مابقیہ قرضے کا سود، معاف کردہ قرضہ کے اندر اندر رہنے کا یقین یا غالب گمان نہیں ہے تو اس صورت میں سود میں ملوث ہونے کا قوی خطرہ ہوگا، جس میں کسی طرح کی کوئی معقول تاویل نہیں ہو سکتی۔

    اور اس معاملہ میں جو سودی معاہدہ کا پہلو پایا جاتا ہے، یہ بربنائے ضرورت وابتلائے عام قابل انگیز ہوگا؛ کیوں کہ دور حاضر میں ایک نہیں ، سیکڑوں معاملات میں ناجائز معاہدے وشرائط ہوتی ہیں، اگر ان سب کو ناجائز کہا جائے تو امت بے پناہ حرج میں مبتلا ہوجائے گی، جیسے: ریلوے یا ایئرٹکٹ میں یہ شرط ہے کہ ٹکٹ کینسل کرانے کی صورت میں پوراپیسہ واپس نہیں ملے گا یا کچھ بھی نہیں ملے گا، جیسے:تتکال ٹکٹ یا نو رفینڈیبل فلائٹ ٹکٹ میں، اور بجلی کنکشن لینے میں یہ شرط ہوتی ہے کہ مقررہ مدت میں بل جمع نہ کرنے کی صورت میں پلانٹی یا سود لگایا جائے گا، اسی طرح فلیٹ یا پلاٹ کی خرید وفروخت میں مقرری تاریخ تک سارا پیسہ ادا نہ کرنے کی صورت میں بیعانہ کی رقم ضبط ہوجاتی ہے۔

    علامہ سرخسی نے مبسوط میں فرمایا کہ مسلمان اور حربی کے درمیان معاملات میں ایسی بہت سی شرطیں جائز ہوتی ہیں، جو مسلمانوں کے درمیان جائز نہیں ہوتیں۔

    لکن صفوان کان یومئذ حربیاً، ویجوز بین المسلم والحربي من الشروط ما لا یجوز بین المسلمین (المبسوط للسرخسي، کتاب العاریة، ۱۱: ۱۳۶، ط: دار المعرفة بیروت)۔

    نیز حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کریڈٹ کارڈ کے جواز میں سودی معاہدے کی شرط پر گفتگو کرتے ہوئے ایک فتوی میں تحریر فرمایا:

    أما کون العقد مشتملاً علی شرط لزوم الفائدة عند التأخیر في السداد فإن مثل ھذہ الشروط موجودة الیوم في کثیر من التعاقدات مثل عقود استخدام الکھرباء والتلیفون والجوال والضرائب الحکومیة وما إلی ذلک فلا یمکن الیوم استخدام الکھرباء إلا بالتوقیع علی العقد الذي یشترط فوائد التأخیر، ولکن بما أن ھذہ شروط غیر معتبرة فما دام الإنسان مطمئناً بأنھا لا تطبق عملیاً، وذلک بالتزام السداد في حینہ فإنہ یمکن أن یتسامح فیھا لعموم البلوی، وقد یستأنس في ذلک (ولا أقول: یستدل) بحدیث شراء عائشة أم الموٴمنین لبریرة رضي اللہ عنھما بعقد فیہ شرط لأن یکون الولاء للبائع، وأجاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشتراط ذلک مع کونہ شرطاً ممنوعاً في الشرع لکونہ علی یقین بأنہ لا یطبق۔ (فتاوی عثمانی، ۳: ۳۵۷)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند