متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 176692
جواب نمبر: 176692
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:514-419/N=6/1441
جس شخص کی کل یا اکثر آمدنی حرام ہو، اُس کے یہاں دعوت کھانا، اُس کا ہدیہ لینا یا مسجد ومدرسہ وغیرہ میں اُس کا چندہ قبول کرنا تو درست نہیں؛ البتہ خرید وفروخت اور کرایہ داری وغیرہ، یعنی: مالی معاملات میں امام کرخیکے قول پر گنجائش ہے ؛ بہ شرطیکہ وہ حرام مال کی صراحت کے ساتھ اُسے متعین کرکے نہ دے؛ لہٰذاکل یا اکثر آمدنی حرام والوں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاکر اُن سے اجرت لے سکتے ہیں، گنجائش ہے۔ اور اگر کوئی شخص ذاتی طور پر احتراز کرے تو اِس کے افضل وبہتر ہونے میں کچھ شبہ نہیں۔ (مستفاد:در مختار وشامی ۹:۲۷۶، ۲۷۷،۷: ۴۹۰، ۴۹۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند،امداد الفتاوی ۲:۱۰، ۱۱،۱۴، ۱۵، ۶۶۸،سوال: ۱۹، ۲۸،۷۷۴،مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند ، فتاوی محمودیہ جدید۱۵: ۹۵- ۹۹، سوال: ۷۲۶۶،۷۲۶۷،۱۸: ۴۱۰ - ۴۱۲، ۴۱۵ -۴۱۷،سوال: ۸۹۰۱ - ۸۹۰۳،۸۹۰۸، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل، فتاوی رحیمیہ جدید ۵: ۲۱۰، مطبوعہ: مکتبہ احسان دیوبند، منتخبات نظام الفتاوی ۲: ۲۷۰- ۲۷۲، مطبوعہ:ایفا پبلی کیشنز،دہلی، وغیرہ)۔
أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغي أن لا یقبل الھدیة ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا فی الینابیع، ولا یجوز قبول ھدیة أمراء الجور؛لأن الغالب في مالھم الحرمة إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس بہ ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب، وکذا أکل طعامھم کذا فی الاختیار شرح المختار (۴:۱۸۷ط دار الکتب العلمیة بیروت)(الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات، ۵:۳۴۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة۔ بولاق، مصر)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند