• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 174783

    عنوان: کریڈٹ کارڈ کے شعبے میں نوکری اور قسطوں پر موبائل وغیرہ خریدنے کا حکم

    سوال: (۱)ایک آدمی ایک ایسی کمپنی کے اندر کام کرتا ہے جو مختلف بینکوں اور فائنانس کمپنیوں کا کانٹریکٹ لیتی ہے ، اسمیں کام کرنے والوں کے مختلف شعبہ جات ہوتے ہیں ،منجملہ ان شعبہ جات میں سے ایک شعبہ بینک کے کریڈٹ کارڈ کا ہے،اس مسلمان آدمی کو اسی شعبے کے اندر کام کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے،جس میں کرنا یہ ہوتا ہے کہ مختلف کسٹمروں کو بذریعہ فون کریڈٹ کارڈ کی سہولتیں بتلائی جاتی ہے اور کارڈ لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ کی آن لائن ویب سائٹ پر موجود ایک فتوے سے شرطیہ طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال درست معلوم ہوتا ہے۔ فتویٰ پیش خدمت ہے(سوال کے املا کی تصحیح کے ساتھ): ”کیا کریڈٹ کارڈ استعمال کر سکتے ہیں اور میں سعودی عرب میں رہتا ہوں یہاں کی حکومت نے اسے جائز قرار دیا ہوا ہے برائے مہربانی اسکا صحیح طریقہ بتائیں کہ ہم کریڈٹ کارڈ لے سکتے ہیں یانہیں؟ کیونکہ میرے بہت دوستو نے لیا ہوا ہے اور وہ مجھ کو بھی بولتے ہیں لیکن میں نے نہیں لیا Published on: Sep 25, 2014 جواب # 55609 بسم اللہ الرحمن الرحیم Fatwa ID: 73-73/Sn=11/1435-U کریڈٹ کارڈ کے بارے میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ اس میں بینک کی طرف سے ایک مدت مقرر ہوتی ہے، کارڈ ہولڈر اگر اس مدت کے اندر بینک کو ادائیگی کردیتا ہے تو اس پر کوئی سود لاگو نہ ہوگا،اگر یہ بات سچی ہے تو جس شخص کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ مقررہ مدت کے اندر اندر سود لاگو ہونے سے پہلے پہلے بینک کو ادائیگی کردیگا، تو اس کے لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرنا شرعاً درست ہوگا۔ وما لا یبطل بالشرط الفاسد القرض بأن أقرضتک ہذہ المأة بشرط أن تخدمنی شہرًا مثلاً فإنہ لا یبطل بہذا الشرط وذلک لأن الشروط الفاسدة من باب الربا وأنہ یختص بالمبادلة المالیّة، وہذہ العقود کلہا لیست بمعاوضة مالیة فلا تو?ثر فیہا الشروط الفاسدة الخ (البحر الرائق ۳۱۲/۶، کتاب البیع باب المتفرقات، ط: زکریا، وللمزد من التفصیل راجع: الفتاوی العثمانیة (۳۵۲/۳، فصل فی البطاقات وأحکامہا، ط: نعیمیہ دیوبند) واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء،" تو کیا اس فتوے کی روشنی میں جبکہ کریڈٹ کارڈ کا جائز استعمال بھی ممکن ہے، اس آدمی کا ایسی نوکری کرنا درست ہوگا؟اور اس کی تنخواہ حلال ہوگی؟ (۲)نیز آج کل amazon وغیرہ ویب سائٹ پر ہر چیز EMIپر ملتی ہے یعنی کہ اس میں قسطوار قیمت ادا کرنے کی سہولت ہوتی ہے لیکن اصل رقم ڈوب نہ جائے اس وجہ سے ساتھ میں یہ شرط بھی ہوتی ہے کہ اگر کوئی قسط چھوٹ جائے تو اس پر مالی تاوان لازم کیا جائیگا جو کہ بنظر شریعت صریح سود ہے۔ لیکن اگر کسی آدمی کو اعتماد ہو کہ اس کی ایک بھی قسط فوت نہیں ہوگی تواس کا کیا حکم ہے؟ کیا دارالعلوم کے مذکورہ فتوے پر قیاس کرتے ہوئے اس کی اجازت ممکن ہے یا نہیں ؟ نیز ناجائز ہونے کی صورت میں دار العلوم کے فتوے اور اس حکم عدم جواز کی میں کیا فرق ہوگا؟ آپ کی دعاوٴں کا طالب احمد بن شعیب نواپوری

    جواب نمبر: 174783

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:295-99T/SN=4/1441

    (1) چونکہ کریڈٹ کارڈ کا جائز استعمال ممکن ہے ، اور عملاً ہوتا بھی ہے ؛ اس لیے فی نفسہ اس شعبے میں ملازمت کی گنجائش ہے ؛ لیکن احتیاط اس میں ہے کہ نہ کرے ؛ کیونکہ بینک کے نزدیک کریڈٹ کارڈ کا ایک مقصد اس سے سود کمانا بھی ہے اور کریڈٹ کارڈ کے شعبے میں ملازمت کرنے والا ظاہر ہے کہ اپنے عمل کے ذریعے اس چیز کو فروغ دے گا ،توکسی نہ کسی درجے میں یہ بھی تعاون علے الاثم ہوا۔

    (2) اگر فائنانس کمپنی کا واسطہ نہ ہو، ڈیلر سے براہ راست معاملہ کرے تو قسطوں پر موبائل خریدنے کی فی نفسہ گنجائش ہے ،بس شرط یہ ہے کہ خریدار کو اپنی مالی حیثیت کے پیش نظر یہ اعتماد ہوکہ وہ سود لاگو ہونے سے پہلے پہلے قسط جمع کردے گا، بہ صورت دیگر جائز نہیں ہے ۔ اگر درمیان میں فائنانس کمپنی کا واسطہ آجائے تو قسطوں پر سامان خریدنا جائز نہیں ہے ؛ کیونکہ یہاں در حقیقت سود پر قرض لینا ہوتا ہے یعنی فائنانس کمپنی خریدار کے نام لون جاری کرتی ہے اور یکمشت پوری رقم ڈیلر کے حوالے کردیتی ہے ، بعد میں وہ رقم خریدار سے سود کے ساتھ قسطوں میں وصول کرتی ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند