متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 174238
جواب نمبر: 174238
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:208-175/L=3/1441
اس طرح کے گیم کھیلنے میں ویسے بھی بلافائدہ وقت کو ضائع کرنا ہے ،اور اس طرح گیموں میں مشغول بچوں کا تعلیمی نقصان بھی ہوتا ہے ،نیز اگر اس میں انہماک کی وجہ سے فرائض وواجبات میں کوتاہی ہونے لگے جیساکہ مشاہدہ ہے کہ اس طرح کے کھیلوں میں انہماک کے بعد آدمی نماز ودیگر فرائض سے غافل ہوجاتا ہے ،یا اس میں ذی روح کی تصویر یا میوزک ہو تو پھر ان صورتوں میں ایسے گیم کا کھیلنا ناجائز وگناہ ہوگا ۔
قال تعالیٰ:“وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِی لَھْوَ الْحَدِیثِ”الآیة (لقمان: ۶)، اللہو کل باطل ألہی عن الخیر وعما یعنی و لہو الحدیث نحو السمر بالأساطیر والأحادیث التی لا أصل لہا، والتحدث بالخرافات والمضاحیک وفضول الکلام وما لا ینبغی من کان وکان ونحو الغناء وتعلم الموسیقار وما أشبہ ذلک (تفسیر الکشاف ۵: ۶،مطبوعہ مکتبہ العبیکان، الریاض) وقال علیہ السلام: مِن حُسنِ إسلامِ المرءِ ترکُہ ما لا یَعنیہِ. وفی الدر المختار وکرہ تحریمًا اللعب بالنرد وکذا الشطرنج (درمختار) وفی الشامی: وإنما کرہ لأن من اشتغل بہ ذہب عناو?ہ الدنیوی وجاء ہ العناء الأخروی فہو حرام وکبیرة عندنا․(در مختار مع الشامی: ۹: ۵۶۴، ۵۶۵مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند