• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 174186

    عنوان: چندہ سے بنائے گئے ہسپتال کو کرایہ پر دینا

    سوال: محترم ومکرم مفتی صاحب ہمارے گاؤں میں غریب لوگوں کو راحت ملے اس غرض مسلمان بھائیوں کے دئے ہوئے چندے سے ایک ہسپتال تیار کیا گیا ہے،جس میں عام آدمی کو چالیس فیصد اور بہت زیادہ غریب انسان ہو تو مکمل رعایت دی جاتی ہے،چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم۔ پہلے چونکہ ڈاکٹر اور خادموں کی تنخواہ بھی کم تھی،نیز ٹرسٹی حضرات بھی کچھ دھیان دے دیتے تھے،اس لیے کسی طرح ہسپتال چلتے رہتا تھا،لیکن اب بعض وجوہات کی بنا پر ہسپتال کا انتظام کرنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے،کیونکہ ٹرسٹی حضرات بھی اپنی مشغولیات کی بنا پر ہسپتال میں وقت نہیں دے سکتے ہیں،جس کی وجہ سے ہسپتال کے اسٹاف پر جیسی نگرانی کی جانی چاہیے ویسی نہیں ہو پا رہی ہے،نیز ہر سال ڈاکٹر اور خادموں کی تنخواہ کے بڑھنے کی وجہ سے، سال بھر کیا ہوا چندہ بھی کافی نہیں ہوتا تھا،اور ڈاکٹر وغیرہ کی غیر حاضری کی کثرت کی وجہ سے بھی بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ کچھ دنوں پہلے ہمارے پاس کچھ ڈاکٹر اپنی درخواست لے کر آئے جس میں انہوں نے یہ بات لکھی تھی کہ : ہم انہیں تین سال کے کونٹراکٹ پر یہ ہسپتال دے دیں،جس میں ڈاکٹر، خدام ،مینیجمنٹ، مینٹیننس وغیرہ تمام کی تمام ذمہ داری انہی لوگوں کی ہوگی،البتہ مالکی ٹرسٹ حضرات ہی کی رہے گی،وہ لوگ اس بات کی بھی گارنٹی دے رہے ہیں کہ وہ ابھی کے مقابلہ میں کہیں زیادہ سہولت لوگوں کو فراہم کریں گے۔ان کا کہنا یہ ہے کہ "سرکار کی جانب سے میڈیکل لائن میں بہت سی رعایتیں ملتی ہیں جس سے لوگ ناواقفیت کی بنا پر فائدہ نہیں اٹھاتے،ہم نے دو تین جگہوں پر سرکار کی طرف سے ملنے والی رعایتوں کو استعمال کرکے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے،جس میں علاج کا صرفہ سرکار کی جانب سے ہمیں دے دیا جاتا ہے،اور لوگوں کو یہ علاج فری میں پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر آنکھ کے موتیا کے ایک آپریشن میں زیادہ سے زیادہ چھ ہزار کا خرچ ہوتا ہے،سرکار اس کے ہمیں گیارہ سے بارہ ہزار روپے دیتے ہیں،جس سے ہمارا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ خرچ کی ہوئی رقم سے ڈبل رقم ہمیں مل جاتی ہے،اور مریضوں کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا علاج فری میں ہوجاتا ہے۔" ہسپتال کے ورکنگ کمیٹی کے ذمہ داروں کو اس درخواست کو منظور کر لینے میں ہسپتال اور گاؤں کے لوگوں کا فائدہ نظر آیا،اور عام لوگوں(گاؤں کے ممبروں) کے سامنے اپنی اس بات کو رکھا ،میٹنگ کے دوران ایک رائے یہ سامنے آئی کہ "کیوں نہ اس سلسلے کا ایک اشتہار شائع کر دیا جائے ،اس امید پر شاید کوئی اس سے زیادہ اجرت پر لینے کے لیے تیار ہو جائے،جس سے ہسپتال کا فائدہ ہوجائے،" بالآخر اسی بات پر میٹنگ برخواست ہوئی کہ اس سلسلے میں اشتہار شائع کر دیا جائے۔ اس کے بعد ہسپتال کی ورکنگ کمیٹی کے ذمہ داران کو یہ خیال آیا کہ اشتہار نامہ شائع کرنے سے کوئی آدمی اس سے زیادہ اجرت پر اسپتال لینے تیار تو ضرور ہو جاوے گا جس سے اسپتال کا فائدہ بھی ہوگا، لیکن عوام الناس کو ان جیسی سہولتیں ملے گی یا نہیں؟اس کی کیا گارنٹی؟جبکہ یہ کونٹراکٹ پر لینے والے ڈاکٹر حضرات تجربہ کار بھی ہیں کیونکہ اس سے پہلے ایک دو جگہ اس طرح کا معاملہ کر بھی آئے ہیں،اور وہ لوگ اس بات کی ذمہ داری لینے خود تیار ہے کہ "ہم علاج کا خرچ بھی غریبوں کی رعایت کرتے ہوئے مناسب رکھیں گے،اور اگر ہم اپنی شرطوں کو کماحقہ ادا نہ کرے تو ٹرسٹیانِ ہسپتال کے نوٹس دینے پر ایک مہینے کے اندر اندر ہسپتال خالی کر دینے کے ایگریمنٹ کرنے پر بھی تیار ہے۔" لہذا ہسپتال کے ورکنگ کمیٹی کے ذمہ دار حضرات کا ارادہ یہ ہے کہ دوبارہ ایک عام مجلس بلوا کر لوگوں کے سامنے اس بات کو پیش کیا جائے اور ان ڈاکٹر حضرات ہی کو کونٹراکٹ دے دیا جائے۔ اب سوال یہ ہے۔ (۱) اس طرح چندہ کر کے تیار کئے ہوئے ہسپتال کو اجرت پر دینا جائز ہے؟ (۲) ورکنگ کمیٹی کے ذمہ داروں کا اس طرح کرنا درست ہے؟ایک خاص مقصد کی بنا پر زیادہ قیمت دینے والے شخص کو کونٹراکٹ نہ دے کر ان ڈاکٹروں کو دے دینا درست ہے؟نیز عام مجلس میں اگر بعض افراد(جو ہسپتال کے کام کاج وغیرہ میں دخیل نہ ہوتے ہوں) اس کے مخالف ہوں لیکن ورکنگ کمیٹی کے تنام ذمہ دار راضی ہو تب کیا حکم ہوگا؟ (۳) اور ڈاکٹر حضرات اجرت اس طرح متعین کرنا کہہ رہے ہیں کہ شروع شروع میں ماہانہ تیس ہزار روپے دیے جائیں گے اس کے بعد جو ماہانہ ٹرن اوور ڈیڑھ کروڑ سے بڑھ جائے تو کل نفع کا بیسواں حصہ بطور اجرت دیا جائے،اور اگر ٹرن اوور دو کروڑ ہو جائے تو منافع کا پچیسواں حصہ بطور اجرت دیا جائے گا،اور ڈھائی کروڑ سے اوپر ہونے پر تیس فیصد اجرت دی جائیگی۔ تو کیا اس طرح اجرت مقرر کرنا درست ہے؟ اور اگر یہ صورت جائز نہ ہو تو کیا یہ ممکن ہے کہ پہلے چھ مہینے کی اجرت الگ متعین کی جائے،اس کے بعد کی چھے مہینے کی الگ مقرر کی جائے؟یا اس کے علاوہ کونسی شکل اختیار کی جاسکتی ہے؟ برائے مہربانی بحوالہ جوذب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع فراہم کریں۔جزاکم اللہ خیرا

    جواب نمبر: 174186

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:202-55T/L=4/1441

    (۱تا۳) مذکورہ بالا صورت میں چونکہ ہسپتال لوگوں کے چندہ سے بنایا گیا ہے ؛اس لیے وہ ہسپتال ٹرسٹی حضرات کے ہاتھ امانت ہے ،ٹرسٹی حضرات پر ضروری ہے کہ وہ چندہ دہندگان کے حسبِ منشا اس میں ہسپتال چلائیں ،ہسپتال کو کرایہ پر دینے میں چندہ دہندگان کے غرض کی مخالفت لازم آتی ہے ؛اس لیے ایسا کرنا جائز نہیں،اگرآپ لوگوں کو ہسپتال چلانے میں دشواری پیش آرہی ہو ہو تو ایسے ماہر وتجربہ کار آدمی کو تنخواہ پر مقرر کرسکتے ہیں جو آپ لوگوں کی طرف سے ہسپتال کو بحسن خوبی چلا سکے ۔ قال فی رد المحتار:مراعاة غرض الواقفین واجبة وشرط الواقف کنص الشارع .


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند