• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 174044

    عنوان: بینک کا انٹرسٹ گھر کے کرایہ میں ادا کرنے کا حکم

    سوال: ایک آدمی ہے جس کی اولاد اس سے الگ رہتی ہے، اس آدمی کا خود کا گھر بھی نہیں ہے، یہ آدمی کرائے کے گھر میں رہتاہے ، اس کے پاس بینک اکاؤنٹ میں کچھ رقم موجود ہے جس پر ہر مہینہ انٹریسٹ آتاہے، کیا یہ آدمی اس پیسے کو گھر کے کرائے میں استعمال کرسکتاہے؟

    جواب نمبر: 174044

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:169-143/N=3/1441

    اگر یہ شخص شریعت کی نظر میں صاحب نصاب ہے تو اس کے لیے بینک کا انٹرسٹ گھر کے کرایہ میں ادا کرنا یا کسی اور طرح اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں؛ کیوں کہ بینک کا انٹرسٹ شریعت کی نظر میں خالص حرام اور خبیث وگندہ مال ہے،اس کا مصرف یہ ہے کہ اس کے وبال سے بچنے کے مقصد سے وہ بلانیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیا جائے، پس اگر سوال میں مذکور شخص صاحب نصاب ہے تو وہ بینک کے انٹرسٹ کا مصرف نہیں ہے۔

    ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ (إعلاء السنن۱۴:۳۷۲،ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراتشي)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند